26 ویں آئینی ترمیم کوکالعدم قراردیا جائے، غیرآئینی ترامیم کے تحت تشکیل کردہ آئینی بینچ کو کالعدم قراردیا جائے، سپریم کورٹ کا فل بینچ اس اہم ترین آئینی معاملے کی سماعت کرے 
''  26 ویں آئینی ترمیم اورنظام انصاف کا مستقبل  '' کے موضوع پر فکری نشست سے خطاب
قومی اسمبلی کے منتخب اراکین پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہیں اسی لئے قومی اسمبلی کو قانون ساز اسمبلی بھی کہاجاتا ہے، آئین میں کسی شق کے اضافے ، کمی یا ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت درکارہوتی ہے ، کسی بھی مسئلہ پر آئینی ترمیم کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے اور دوتہائی اکثریت سے یہ قرارداد منظورہونے کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھیجی جاتی ہے ، سینیٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کے دستخط ہوتے ہیں اس طرح وہ ترمیم آئین کا حصہ بن جاتی ہے ۔ 
اکتوبر 2024ء میں 26 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منظور ہونے کے بعد آئین کا حصہ بن گئی ، اس آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا اور آج کل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر پٹیشن کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جارہی ہے اور ملک کے سینئر ترین وکلاء 26 ویں آئینی ترمیم کودرست یا غلط ثابت کرنے کیلئے اپنے اپنے دلائل دے رہے ہیں ۔ سماعت کے دوران یہ نکتہ بھی موضوع ِبحث بنا ہوا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کے جج صاحبان کریں گے یا اس مقدمے کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے۔ 
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم منظورکرنے کا فیصلہ غلط ہے اوراگر اس فیصلے کوچیلنچ کرنے کی درخواست وہی آئینی بینچ سنے گی تویہ انصاف نہیں ہوگااور سینئر ترین وکلاء بھی 26 ویں آئینی ترمیم کو ملک ، عوام اورملک کے نظام حکومت کیلئے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
 اب تک کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ، سینئر وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ہیں اور ان کی جانب سے باربار رائے مانگی جارہی ہے کہ کورٹ کیسے فیصلہ کرے کہ اس مقدمے کی سماعت 16 جج صاحبان کریں گے یا فل کورٹ کے 24 جج صاحبان کریں گے جن میں آئینی بینچ کے جج صاحبان بھی شامل ہیں؟
میں 26ویں آئینی ترمیم کے تناظرمیں اپنے دلائل پیش کررہاہوں جنہیں سن کر آپ اپنی سوچ وفکر کے مطابق خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم برقرار رہنی چاہیے یا کالعدم قراردے دینی چاہیے۔ 
مجھے اس بات پر شدید حیرت اور تعجب ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں میں کیاکوئی تقسیم کی جاسکتی ہے؟کیا پاکستان کے آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں میں تفریق پیدا کرے ؟
پاکستان کا بچہ بچہ سمجھ سکتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک ایسی ترمیم ہے جس نے دنیا کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی اعلیٰ ترین عدالت کو دوحصوں میں تقسیم کردیا، ایک آئینی بینچ اوردوسری غیرآئینی بینچ ۔اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئین سے متعلق مقدمات کی سماعت کیلئے علیحدہ سے آئینی بینچ تشکیل دیں۔ 
 آئین اورقانون پر عبوررکھنے والے ماہرین بتائیں کہ آئینی بینچ سے کیامطلب ہے؟ اورغیرآئینی بینچ کیا ہوتی ہے؟ کیاجن ججز کوآئینی بینچ سے باہر رکھا جاتا ہے توکیا اس کامطلب یہ ہے کہ وہ آئین کونہیں سمجھتے؟ اور اگر غیرآئینی بینچ میں بیٹھنے والے ججز آئین کو نہیں سمجھتے تو پھرانہیں سپریم کورٹ کا جج بھی نہیں ہونا چاہیے۔
اس 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں علیحدہ سے آئینی بینچ تشکیل دیکرسپریم کورٹ کے باقی ججوں کی اہلیت اورقابلیت پر سوال اٹھا دیا گیا ہے کہ وہ آئینی معاملات سے متعلق مقدمات سننے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ 
 دنیا بھرمیں ہر مسئلہ آئین وقانون کے مطابق حل کیاجاتا ہے ،اگر سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو غیرآئینی کہہ دیا جائے اور اگرصرف آئینی بینچ میں شامل ججز ہی آئین سے متعلق مقدمات کی سماعت کریں گے توغیرآئینی بینچ میں بیٹھنے والے جج صاحبان کیا پانی، بجلی اور گیس کے مقدمات سنیں گے ؟ میری دانست میں ایسی آئینی ترمیم جو ججوں کوہی تقسیم کردے، کیا اس ترمیم کوآئینی یا جائز قراردیا جاسکتا ہے ؟
ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم جو امتیاز اور ناانصافی کو جنم دے اورسپریم کورٹ کے ججوں کو تقسیم کردے وہ درست اور جائز ترمیم قرارنہیں دی جاسکتی کیونکہ سپریم کورٹ کے ججوں کوآئینی بینچ سے باہر رکھنے کاواضح مطلب یہی ہوگا کہ ان ججوں میں آئین کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے ۔ایسی ترمیم جو پاکستان کوبہتر بنانے کے بجائے پاکستان کے دوٹکڑے کردے کیا اُس ترمیم کو کوئی جائز قراردے سکتاہے ؟ 
26 ویں آئینی ترمیم نے میرٹ کے اصول کی دھجیاں بکھیر کر حکومت کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ جسے چاہے جج بنادے ،اسی طرح چیف جسٹس کی تقرری بھی سینیاریٹی کے طے شدہ ضابطے اوراصول کے تحت ہوا کرتی ہے لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ جسے چاہے چیف جسٹس مقررکردے، کیااسے منصفانہ کہاجاسکتا ہے؟
26 ویں آئینی ترمیم 8 فروری 2024ء کوہونے والے الیکشن کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ پارلیمنٹ نے کی ہے ، اس بات کو طے کیا جائے کہ موجودہ پارلیمنٹ کا وجود جائز طریقہ سے عمل میں آیاہے یا ناجائز طریقے سے ؟
پوری دنیا جانتی ہے کہ 8 فروری 2024ء کوجوالیکشن کرائے گئے وہ سراسرغیرمنصفانہ تھے ۔ اس میں ملک کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصا ف سے اس کا انتخابی نشان''بلا'' چھین لیا گیا۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ میں گئی توچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے بھی تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لینے کا فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بھی غیرآئینی، غیرقانونی ، سراسر آمرانہ اورجابرانہ تھا۔ اصولی طورپر توایساغیرآئینی فیصلہ دینے والے کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کرکے سپریم کورٹ میں نئے سرے سے مقدمہ چلنا چاہیے۔ 
 جب الیکشن ہوئے اورووٹوں کی گنتی ہوئی توتحریک انصاف کے امیدواروں کوزیادہ ووٹ ملے تھے۔ الیکشن کمیشن کے فارم 45 جس پر تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے دستخط تھے،اس کے مطابق بھی تحریک انصاف کے امیدوارجیتے تھے لیکن جب الیکشن کمیشن نے فارم 47 پر حتمی نتائج ترتیب دیے تو وہاں نتائج یکسر تبدیل کردیے گئے اورجوامیدوار جیتے ہوئے تھے انہیں ہارا ہوا دکھایا گیا اورجوہارے ہوئے تھے ان کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔یہ الیکشن کمیشن کی کوئی غلطی نہیں بلکہ ایک سنگین جرم ہے ۔
لہٰذا جس الیکشن کے نتائج ہی سراسر دھاندلی پر مبنی ہوں، اس کے تحت اسمبلی میں پہنچنے والے ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ کیسے جائز قراردی جاسکتی ہے؟
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی کی نشستیں ملکر بھی تحریک انصاف سے کم ہیں، اس طرح بھان متی کا کنبہ بنا کر اقلیت کواکثریت میں بدل کر حکومت بنائی گئی ۔ یہ عمل بھی غیرآئینی ہے۔ 
میراسوال یہ ہے کہ جوپارلیمنٹ خود ناجائز طریقے سے وجود میں آئی ہو اس کوآئین میں ترمیم کاحق کیسے دیا جاسکتا ہے ؟ ناجائزپارلیمنٹ کی جانب سے کی جانے والی ترامیم کس طرح جائز ہوسکتی ہیں؟ 
ملک کے عوام خود آگاہ ہیں کہ کس طرح راتوں رات دباؤ، دھونس ، دھمکی کے ذریعے آئین میں ترامیم کی گئیں، پھر اسے سینیٹ سے پاس کراکے کس طرح آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس طرح یہ پورا عمل بھی سراسر ناجائز ہے۔ 
 میرا سوال یہ ہے کہ اگربالفرض پارلیمنٹ کی جانب سے آئین میں یہ ترمیم کی جائے کہ پاکستان کودو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ، توکیا یہ ترمیم درست قراردی جاسکتی ہے ؟ اسی طرح پارلیمنٹ کی جانب سے آئین میں کی گئی ایسی ترمیم جو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو آئینی بینچ اورغیرآئینی بینچ دوحصوں میں تقسیم کردے، وہ درست اورجائز کیسے قراردی جاسکتی ہے ؟
 کسی بھی ملک میں عوام کے لئے انصاف کے حصول کی آخری امید سپریم کورٹ ہوتی ہے لیکن اگر سپریم کورٹ میں ہی تفریق اورتقسیم کردی جائے، تووہ کیا خاک انصاف کرے گی ؟ 
یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست کی سماعت وہی آئینی بینچ کررہا ہے جسے 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت تشکیل دیاگیا ہے ،جو Conflict of interest  یعنی  '' مفادات کے ٹکراؤ  '' کے زمرے میں آتاہے ۔ لہٰذا اس بین الاقوامی اصول کے تحت بھی یہ آئینی بینچ اس کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت نہیں کرسکتا۔ 
لہٰذا میری دانست میں اس آئینی لڑائی کوصاف ستھرے انداز سے حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ اس اہم ترین آئینی معاملے کی سماعت کرے ، آئین میں جوغیرآئینی ترامیم کی گئی ہیں اوراس کے تحت جوچیف جسٹس کا تقررکیا گیا ہے اورجوآئینی بینچ تشکیل دیا گیا اس کوکالعدم قراردیاجائے 
میں سمجھتا ہوں کہ اگراس 26ویں آئینی ترمیم کوکالعدم قرارنہیں دیا گیا تویہ نہ صرف نظام انصاف کے لئے بلکہ ملک کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ 
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 337ویں فکری نشست سے خطاب
25 ، اکتوبر2025ئ