Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

سسٹم کیا ہے ؟ کیسے چلتاہے؟ کون چلاتاہے ؟ سسٹم میں کون کون سے عناصر شامل ہیں؟


سسٹم کیا ہے ؟ کیسے چلتاہے؟ کون چلاتاہے ؟ سسٹم میں کون کون سے عناصر شامل ہیں؟
 Posted on: 10/20/2025

سسٹم کیا ہے ؟ کیسے چلتاہے؟ کون چلاتاہے ؟ سسٹم میں کون کون سے عناصر شامل ہیں؟
……………………………… 

قیام پاکستان کے بعد سے ملک میں ایک موروثی نظام سیاست چل رہاہے، یعنی کسی بھی سیاسی جماعت کا رہنما یا بانی جب دنیا سے چلاجاتا ہے تو اس کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اس کا بیٹا آجاتا ہے اور اس بیٹے کے جانے کے بعد اس کا بیٹا آجاتا ہے ، اس نظام کو ہم موروثی سیاسی نظام کہتے ہیں ۔پاکستان کی 78 سالہ تاریخ کاجائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پاکستان میں یہی موروثی سیاسی نظام رائج ہے اور آج تک چلاآرہا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد ان کے بیٹے ، بیٹی بے نظیربھٹو اور بیگم نصرت بھٹو سیاست میں آئیں ، بھٹو کے دونوں بیٹوں کو ماردیا گیا ، بے نظیر بھٹو اپنے والد کے سیاسی ایجنڈے پر کام کرتی رہیں جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں تو ان کے بیٹے بلاول زرداری آگئے ۔ 
اسی طرح میاں نواز شریف کے بھائی ، بھتیجے اور بیٹی یعنی پورا خاندان سیاست کررہا ہے اور یہ موروثی سیاست کی صورتحال آپ کو مذہبی جماعتوں میں بھی دیکھنے کو ملے گی ۔ کسی بھی سیاسی یامذہبی جماعت میں خاندان کے افراد ہی اپنی جماعت کے پروگرام کی منصوبہ بندی کے احکامات دیتے ہیں باقی کام اس جماعت کے گمنام کارکنان کرتے ہیں۔ 
اب یہ صورتحال ایک سماجی روایت بن چکی ہے جسے '' سسٹم '' کے خاص لفظ سے پکارا جاتا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ''سسٹم کا حصہ بنو اور مزے کرو…سسٹم کے خلاف جاؤ گے تو سزا بھگتو گے ، مقدمات کا سامنا کروگے ،جیل میں جاؤ گے ، طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کروگے ، مارے جاؤ گے اور اگرقاتلانہ حملوں سے بچ گئے تو جلاوطنی میں جاؤ گے ۔
سسٹم کو چلانے والے چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں وہ کسی بھی منتخب نمائندے کو اتنا اختیاردیں گے کہ وہ اگرکوئی معاہدہ کرنا چاہیں تو معاہدوں میں وہ بات کریں گے جس کافوج حکم دے گی ۔ ہمیشہ وزیراعظم کے ساتھ فوجی افسر ہوتا ہے جو دوران گفتگو وزیراعظم کو ایک پرچہ تھماتا ہے کہ آپ کویہ بولنا ہے ۔
ملک میں رائج سسٹم یہ بھی ہے کہ فوج اور سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی سیاست میں عمل دخل کرتی ہے، بظاہر ملک میں منتخب صدر بھی ہوتا ہے اور منتخب وزیراعظم بھی لیکن عملاً دونوں اعلیٰ منتخب شخصیات فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہوتے ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کرچلتے ہیں۔ 
مثال کے طورپرجب 2023ء میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو ان کے تمام وزراء نے استعفے پیش کردیئے تھے لیکن عمران خان کے قریبی ساتھی عارف علوی صدرمملکت کے عہدے پرفائز رہے لیکن صدرمملکت کے عہدے پرفائز ہونے کے باوجود عارف علوی، عمران خان کو جیل سے نہیں چھڑا سکے کیونکہ آئین کے تحت صدرپاکستان کے اختیارات ہوتے ہیں لیکن وہ بھی فوج کے ماتحت چلتے ہیں جیسے اس وقت میاں شہباز شریف وزیراعظم ہیں لیکن وہ فوج کی مرضی کے بغیرکوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح موجود ہ صدرمملکت آصف زرداری بھی وزیراعظم سے چارہاتھ آگے بڑھ کر فوج کی پالیسی کے مطابق چلتے ہیں۔ 
اسی طرح وکلاء کا بھی سسٹم میں بہت کردار ہوتا ہے ،78 برسوں کی تاریخ میں آج تک وکلاء نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی تحریک نہیں چلائی ۔2007ء کی وکلاء تحریک بھی ایسی ہی تحریک تھی جس کے پیچھے اس وقت کی فوجی ایجنسی آئی ایس آئی تھی۔ اس وکلاء تحریک میں سینئروکلا رہنما بھی شامل تھے اور موجودہ ججز بھی اس تحریک کا حصہ تھے اس کے علاوہ تمام بارایسوسی ایشن کے وکلاء بھی اس تحریک سے جڑ گئے تھے ، انہیں اچانک فوجی سربراہ برا نظر آنے لگا جبکہ 1999ء تک جتنے بھی فوجی سربراہ آئے لیکن تمام وکلاء برادری ان کے آگے خاموش رہی۔ اس تحریک میں شامل وکلا رہنما ایک دن میں تین تین شہروں میں جلسے جلوس کرتے اورطیاروں میں سفرکرتے جنہیں اس تحریک کے لئے باقاعدہ پیسہ فراہم کیا جارہا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے ججز بھی اسی سسٹم کاحصہ ہوتے ہیں ،اسی کوتحفظ فراہم کرتے ہیں اورعوام کوانصاف فراہم کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ اوراس کے سسٹم کی مرضی ومنشا کے مطابق فیصلے سناتے ہیں۔
میڈیا سے وابستہ بڑے بڑے اینکرز ،صحافی بھی اس سسٹم کاحصہ ہوتے ہیں اورسسٹم کوچلانے والوں کی مرضی ومنشا کے مطابق کام کرتے ہیں۔ 
اسی طرح شاعر، ادیب، لکھاری اور صحافی بھی سسٹم کاحصہ ہوتے ہیں وہ حکمرانوں کی شان میں قصیدہ گوئی تو کرسکتے ہیں لیکن ان کے خلاف نہیں جاسکتے، اگر گئے تو لاپتہ کردیئے جائیں گے ۔ کشمیری شاعر احمد فرہاد کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔
ملک میں اسٹیٹس کو اوراپنے سسٹم کوبرقراررکھنے کے لئے سرکاری ایجنسیاں بعض تنظیمیں اورجماعتیں بناتی ہیں، انہیں پیسہ ، اسلحہ اورہرطرح کی سپورٹ فراہم کرتی ہیں، ان کی شہرت کراتی ہیں،انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اورجب ان کی بنائی گئی جماعتوں سے کام پورا ہوجاتاہے توانہیں ٹشوپیپرکی طرح پھینک دیا جاتاہے۔ اس کی تازہ مثال تحریک لبیک پاکستان ہے جسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بنایا، اسے خوب استعمال کیا، انہیں دیگرمذاہب کے ماننے والوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرائے گئے اور انہیں کبھی ہاتھ نہیں لگایا گیا ، گزشتہ دنوں بھی جبکہ مصرکے مقام شرم الشیخ میں امریکہ کے صدر ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن کے بارے میں کانفرنس ہورہی تھی تواسی دوران تحریک لبیک سے فلسطین کے معاملے پر ا حتجاج کرایا گیا، انہیں ہرطرح کی سیکوریٹی کی ضمانت دی گئی اورپھر مرید کے میں ان کے جلوس پر بیدریغ گولیاں چلائی جاتی ہیں، وہاں کتنی ہلاکتیں ہوئی اب تک واضح نہیں ہے ۔ اس ایکشن کے ذریعے دنیا خصوصاً امریکہ کے صدر کوپیغام دیا گیا کہ ہم ان کے خلاف کئے جانے والے احتجاج کوکس طرح طاقت سے روک رہے ہیں۔ تحریک لبیک سے مطلب نکل جانے کے بعد اسے فارغ کردیا گیا۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ جب تمام ترسازشوں کے باوجود ایم کیوایم کوتوڑنہیں سکی تواس نے اپنے مقاصد کے لئے 1992ء میں حقیقی بنائی ، پھر2016ء میں پی ایس پی بنائی ، اس کو بھی حقیقی کی طرح استعمال کیا گیا، جب کامیابی نہ ہوسکی تواس کوکہا گیا کہ وہ اپنا بوریابستر سمیٹے اورایم کیوایم میں ضم ہوجائے جس نام کووہ دفن کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی طرح تحریک انصاف کوتوڑنے کے لئے استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی اورپی ٹی آئی کے لوگوں کو توڑ کراس میں شامل کرایا گیا۔ لیکن جعلی اورمصنوعی چیزیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں بلکہ اپنے بنانے والوں کے اشارے پر چلتے ہوئے استعمال کرنے کے بعد ٹشوپیپرکی طرح پھینک دی جاتی ہیں۔ جولوگ وقتی طورپر بیوقوف بنتے ہیں وہ بالآخر اپنی اصل راہ پرآجاتے ہیں۔ 

الطاف حسین 
ٹک ٹاک پر 334 ویں فکری نشست سے خطاب
19، اکتوبر2025ئ


10/20/2025 4:33:04 PM