پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے 20 نکاتی منصوبہ تسلیم کرلیا جس میں فلسطینی ریاست کا ذکر تک نہیں ہے
بیرونی طاقت کے مفاد کیلئے افغانستان پر بمباری کانتیجہ پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل فلسطین تنازع:
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی غرض سے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت امریکی صدر اڈونلڈٹرمپ کے قدموں میں گری ہوئی ہے اورانہوں نے امریکی صدرکے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کو تسلیم کرلیا جس میں فلسطینی ریاست کا ذکر تک نہیں ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیاراور اقتدار امریکہ کو یہ یقین دلارہے ہیں کہ آپ فلسطینی ریاست بنائیں یا نہ بنائیں ہم اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔
افغانستان پالیسی:
آج سے 47 سال قبل جب الطاف حسین نے اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی تو یہ بھی مطالبہ کیاتھا کہ افغان پناہ گزینوں کوپاکستان بھرمیں بسانے کے بجائے ایک مخصوص علاقے میں بسایاجائے لیکن میری بات پر توجہ نہیں دی گئی، میرے مطالبے کو لسانیت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اورافغان پناہ گزینوں کولاکھوں کی تعداد میں کراچی اوردیگرشہروں میں بسایاگیا،اس مقصد کے لئے شہریوں کے مکانات اورزمینوں پرقبضے کرلئے گئے،انہیں یہاں رہنے سہنے اورہرطرح کاکاروبارکرنے کی اجازت دی گئی جس سے ملک پر منفی اثرات مرتب ہوئے،لیکن آج پاکستان سے افغانیوں کو یہ کہہ کرنکالاجارہا ہے کہ یہ ملک کونقصان پہنچارہے ہیں، جس سے ثابت ہوگیا کہ میرا مؤقف درست تھا۔
اسی طرح 40 سال قبل الطاف حسین نے مطالبہ کیاتھا کہ کراچی میں طالبانائزیشن کی جارہی ہے، خدار اطالبان کو کراچی میں نہ بسایاجائے تو مجھے مغلظات بکی گئیں، مجھے انڈین ایجنٹ اورملک دشمن قراردیاگیا اور کہاگیا کہ طالبان، پاکستان کے مجاہد ہیں۔اگریہ پاکستان کے مجاہدتھے تو آج ان مجاہدوں کو دہشت گرداورفتنہ قراردیکر پاکستان سے کیوں نکالاجارہا ہے؟ مجھ پر بہتان تراشی کرنے والے آج خود کہہ رہے ہیں کہ افغانیوں کو پاکستان سے نکالاجائے، اس وقت کہتے تھے کہ طالبان پاکستان کے محافظ ہیں لیکن آج پاکستان کی فوج افغانستان پر حملے کررہی ہے اورافغانی طالبان پاکستان کی چوکیوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ الطاف حسین کہتا رہا کہ یہ ایک دن آپ کے لئے فرینکسٹائن مونسٹربن جائیں گے آج وہی ہورہا ہے کہ آپ کی چوکیوں پر حملے کیے جارہے ہیں لیکن آپ نے الطاف حسین پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
ہمیں افغانستان کی تاریخ یادرکھنی چاہیے کہ افغانستان پر انگریزقبضہ نہیں کرسکا اور معاہدہ کرنے پر مجبورہوگیا، روس نے افغانستان فتح کرنے کی کوشش کی مگر کئی سال بعد روس کوبھی افغانستان سے جانا پڑا، امریکہ 20 سال تک افغانستان میں رہا لیکن بالآخر اسے بھی افغانستان سے ناکام ونامراد واپس جانا پڑا۔
میں پاکستان کی فوج کے اعلیٰ حکام کومشورہ د یتاہوں کہ آپ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی ضرور کریں مگر افغانستان پربمباری نہ کریں کیونکہ کسی بیرونی طاقت کے مفاد کیلئے افغانستان پر بمباری کانتیجہ پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
الطاف حسین
333ویں فکری نشست سے خطاب
18، اکتوبر2025ء