نثار علی ملنگ
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
پاکستانی ناظرین کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے کہ ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر ٹی وی سکرین پر جوہری سمگلنگ میں ملوث ہونے کا ’رضاکارانہ‘ اعتراف کریں یا پھر پھانسی کی کوٹھڑی سے ایم کیو ایم کے مبینہ ٹارگٹ کلر صولت مرزا کا وڈیو بیان نجی ٹی وی چینلوں پر نشر ہوجائے یا ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش کے مبینہ ملزم خالد شمیم ایف آئی اے کی تحویل میں ہونے کے باوجود اپنا اعترافی بیان ٹیلی کاسٹ ہوتا دیکھ لیں۔
چنانچہ پاکستانی ناظرین نے گذشتہ بدھ ، جمعرات اور جمعہ کو پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر چلنے والے تین اعترافی وڈیوز کو بھی اسی دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ پہلی دو وڈیوز بدعنوانی کے سنگین الزامات میں زیرِ حراست سابق وفاقی وزیرِ پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی تھیں جن میں وہ آصف علی زرداری اور ان کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ تیسری وڈیو ایم کیو ایم کے ایک زیرِ حراست کارکن منہاج قاضی کی ہے جس میں وہ انکشاف کر رہے ہیں کہ سابق گورنر سندھ حکیم سعید کے اٹھارہ برس پرانے قتل میں کون ملوث تھا۔
ان وڈیوز کے نشریے پر اگر کسی واحد پاکستانی کو حیرت ہوئی تو وہ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین اور منہاج قاضی کے وڈیو بیانات کی اس طرح سے تشہیر ایک غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکت ہے۔ مقدمہ عدالت میں چلنا چاہیے نہ کہ میڈیا میں۔ ایسی حرکتوں سے مقدمہ طاقتور نہیں کمزور ہوتا ہے۔ پیمرا ایسی وڈیوز کی نشریات کا نوٹس لے۔ اور حکومتِ سندھ چھان بین کرے کہ ان وڈیو لیکس میں کون کون ملوث ہے؟
چوہدری نثار علی کی باتوں سے یہ تو واضح ہوگیا کہ وہ اعزازی وزیرِ داخلہ ہیں۔ جنہیں ایسے معاملات دیکھنے کی پوری آزادی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں قائم چینی مالش گھروں میں مقامی اقدار کا احترام ہو رہا ہے کہ نہیں۔
سندھ رینجرز کہنے کو تو وزیرِ داخلہ کے تحت ہیں لیکن جب ایم کیو ایم کے ایک کارکن آفتاب احمد کی رینجرز کی تحویل میں ہلاکت ہوتی ہے تو چھان بین کا حکم چوہدری نثار علی نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف دیتے ہیں۔
کہنے کو تو نادرا بھی وزیرِ داخلہ کے ماتحت ہے لیکن وزیرِ داخلہ نہیں جانتے کہ ملا اختر منصور کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نادرا نے بنا کے دیا یا کسی نے نادرا سے بنوا کے دیا۔
کہنے کو تو بارڈر کنٹرول بھی وزیرِ داخلہ کی ذمہ داری ہے لیکن انگور اڈے کی چوکی افغانستان کے حوالے کس نے کیوں کب کی۔ یہ تفصیلات بھی میری طرح چوہدری صاحب کو اخبار اور چینلز میں شائع ہونے والے اس پاک افغان فوجی گروپ فوٹو سے ملیں جو آئی ایس پی آر نے 21 مئی کو ریلیز کیا۔
کہنے کو تو پاسپورٹ کنٹرول، امیگریشن اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ کی ذمہ داری بھی وزیرِ داخلہ کی ہے بشرطیکہ معاملہ ایان علی کا ہو، پرویز مشرف کو روکنے کا نہ ہو۔
وڈیو زدہ ڈاکٹر عاصم حسین ہوں کہ منہاج قاضی کہ خالد شمیم کہ صولت مرزا۔ کون سا ملزم کب رینجرز، ایف آئی اے، نیب یا جیل حکام کی کسٹڈی میں رہا اور ان سے چھان بین کرنے والی مشترکہ تحقیقی ٹیم میں کون کون سی ایجنسیاں شامل تھیں یا ہیں؟
نثار علی ملنگ کو اگر یہ خبر ہوتی تو کاہے کو اپنے سے بھی زیادہ قلندر سندھ حکومت کے ذمے یہ کام لگاتے کہ میں بھنگ کو گھوٹا دیتا ہوں تو ذرا جا کے دیکھنا کہ یہ ڈاکٹر عاصم اور منہاج قاضی کی وڈیوز کس نے ریلیز کی ہیں۔ حق مولا۔۔۔