Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

پاکستان کا عدالتی نظام کبھی بھی آزاد اور خودمختار نہیں رہا


 Posted on: 11/16/2025

پاکستان کا عدالتی نظام کبھی بھی آزاد اور خودمختار نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ #27thConstitutionalAmendment پاکستان 14، اگست1947ء کو آزاد ہوا اورقیام پاکستان کو 78 برس گزرچکے ہیں لیکن پاکستان کا عدالتی نظام کبھی بھی آزاد اور خودمختار نہیں رہا۔  بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جب شدید علیل ہوئے تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں علاج کی غرض سے کراچی یالاہور بھیجنے کے بجائے بلوچستان کے دوردراز علاقے زیارت بھیج دیاجہاں نہ تو کوئی اسپتال تھا اور نہ ہی کوئی کلینک تھا حالانکہ انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک بھی بھیجاجاسکتا تھا۔ قائداعظم جب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے اس وقت ان کے پاس سوائے ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے کوئی نہیں تھا، جب قائداعظم کی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو محترمہ فاطمہ جناح نے ہرجگہ رابطہ کرکے کہاکہ فوری ایمبولینس بھیج دیں تاکہ قائداعظم کو کراچی لایاجاسکے۔ ایک سازش کے تحت بہت تاخیرسے ایسی ایمبولینس بھیجی گئی جوکہ پھٹیچر تھی دوسرے اس کی ٹنکی پیٹرول سے بھری ہوئی نہیں تھی۔ یہ ایمبولینس قائداعظم کو زیارت سے لیکر کراچی کیلئے روانہ ہوئی تو راستے میں پیٹرول ختم ہوگیا۔ محترمہ فاطمہ جناح دوسری ایمبولینس کیلئے ماری ماری پھرتی رہیں، سڑک پر دوڑنے والی گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کرتی رہیں لیکن کوئی گاڑی نہیں رکی اور جتنی دیر میں دوسری ایمبولینس پہنچی تو اس وقت قائداعظم انتقال کرچکے تھے۔  کہاجاتا ہے کہ زیارت صحت افزاء مقام ہے اسی لئے وہاں بھیجاگیا تھا لیکن جب قائد اعظم علیل تھے تو انہیں پہلے اسپتال میں داخل کیاجاناچاہئے تھا اور اس کے بعد انہیں کسی صحت افزاء مقام بھیجاجاتا۔حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم طبعی موت نہیں مرے تھے بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے سازش کے تحت انہیں بے یارومددگار مرنے پر مجبورکیااورانہیں دانستہ ایسی جگہ بھیجا گیا جہاں کوئی ڈاکٹر تھا اورنہ ہی کوئی اسپتال تھا۔ میرا سوال ہے کہ بانی پاکستان کی اس غیرطبعی موت کا کیا سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس لیا؟ کیاکسی بھی سیاستداں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ قائد اعظم کو شدید علالت کی حالت میں بلوچستان کیوں بھیجاگیا؟ ان کیلئے خراب ایمبولینس کیوں بھیجی گئی؟ اس ایمبولینس میں پیٹرول کیوں نہیں تھا؟ جب میں یہ سچ بیان کرتا ہوں کہ پاکستان آج تک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی نہیں بناسکا تو بہت سے لوگوں کو میرا سچ بولنا برا لگتا ہے۔  یہ تاریخی حقائق ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو 16،اکتوبر1951ء کو اس لئے قتل کردیاگیا کہ انہوں نے روس کے دورے کی دعوت کیوں قبول کی تھی۔ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم کو کسی ملک کا سربراہ اپنے ملک کے دورے کی دعوت نہیں دے رہاتھا جبکہ انڈیا کے وزیراعظم کو امریکہ سمیت پوری دنیا سے دورے کی دعوت مل رہی تھی اس دوران ایران میں پاکستانی سفارتکارکی روس کے سفیر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے روسی سفیرسے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دینے کی درخواست کی۔ جس پر ایک ہفتے بعد روس کے صدر نے خان لیاقت علی کو روس کے دورے کی دعوت دیدی۔ جب اس دعوت کی خبر امریکہ کو ملی تو امریکہ نے بھی پاکستانی وزیراعظم کو امریکی دورے کی دعوت دیدی۔ اصولی طورپر پاکستانی وزیراعظم کو پہلے روس کا دورہ کرنا چاہیے تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو بہانے بناکر امریکہ کے دورے پر بھیج دیا، روس کے دورے کی دعوت قبول کرنا خان لیاقت علی خان کا جرم بن گیا اورپھرانہیں سازش کے تحت 16 اکتوبر1951ء کوراولپنڈی میں بھرے جلسے میں گولی مارکرشہید کردیاگیا۔ سازشی منصوبے کے تحت خان لیاقت علی کے قاتل سید اکبر کو موقع پر ہی ہلاک کردیاگیا حالانکہ اس کے اطراف پولیس افسران موجود تھے اور قاتل کو زندہ گرفتارکیاجاسکتا تھالیکن ایسانہیں کیاگیا۔ کیاسپریم کورٹ نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے سفاکانہ قتل کاکوئی نوٹس لیا؟ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا، اس مارشل لاء کے دورمیں بدنام زمانہ ایبڈو کاقانون متعارف کراکر سیاسی قائدین کو نااہل قراردیا گیا اور ان کی زباں بندی کی گئی،کیاسپریم کورٹ نے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف کوئی فیصلہ دیا؟بہانہ بنایاجاتاہے کہ اس وقت آئین نہیں تھا جبکہ یہ سفید جھوٹ ہے،1956ء میں آئین پیش کیاجاچکا تھا لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے اس مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قراردے دیا تھا۔ #27thConstitutionalAmendment جنرل ایوب خان کے مارشل لاء دورکے بعد جنرل یحییٰ خان کامارشل دورشروع ہوا۔ 1971ء میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا دور میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کیلئے حمودالرحمان کمیشن تشکیل دیا گیا مگر سرکاری سطح پرآج تک حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔ پاکستان دولخت ہونے کے بعدپیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوملک کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنے۔ اورپھرپیپلزپارٹی کی بھٹو حکومت میں 1973ء کا آئین تشکیل دیاگیا جس پر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے متفقہ طورپر دستخط کیے۔ اس آئین کے آرٹیکل 6 میں واضح لکھاہوا ہے کہ جوکوئی آئین توڑے گا یا آئین توڑنے کی سازش کرے گا تو اس پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیاجائے گا جس کی سزا موت ہوگی لیکن جب5، جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایااورآئین کومعطل کیا تو کیا سپریم کورٹ نے اس مارشل لاء کے خلاف کوئی فیصلہ دیا کہ یہ مارشل لاء ناجائزہے اور دستورپاکستان کے تحت جنرل ضیاء الحق کو گرفتارکرکے پھانسی کی سزا دی جائے؟ اس کے بجائے سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز قراردیا۔کیاسپریم کورٹ نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اور آئین میں حالیہ ترامیم کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟  ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں کئی ترامیم کیں۔پھر مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی باری باری حکومت میں آتی رہیں اور آئین سے کھلواڑ کرتی رہیں اورآج پھردونوں جماعتوں نے مل کرپہلے 26ویں ترمیم کی اوراب 27ویں ترمیم کرڈالی۔ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت کے دوران سینئر وکلاء نے مضبوط دلائل پیش کیے، جس پر جج صاحبان بغلیں جھانکتے رہے لیکن پٹیشن پر فیصلہ دینے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کیے گئے تاکہ 27 آئینی ترمیم منظور ہوجائے اور ججوں کو بھی تحفظ ملے۔   مارشل لاء ا دوارمیں چند باضمیر اور انصاف پسند ججوں نے تو مارشل لاء کے تحت حلف اٹھانے سے انفرادی طور پر تو انکار کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کردیئے جس طرح آج 27 ویں ترمیم پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، لاہورہائی کورٹ کے جج شمشاد الدین اورایک آئینی وقانونی ماہر مخدوم علی خان نے تو جسٹس اینڈ لاء کمیٹی سے احتجاجاً استعفیٰ دیدیا ہے مگر سپریم کورٹ کے دیگر ججوں نے 27 ویں آئینی ترمیم کومستردکرتے ہوئے اجتماعی طورپراستعفے دینے کے بجائے اس ترمیم کو اس طرح گلے سے لگالیاہے جیسے وہ کسی مقدس کتاب کو سینے سے لگاتے ہیں۔جب کڑے اور امتحان کے وقت سپریم کورٹ کے ججوں نے بزدلی اوربے ضمیری کا عمل کیاہے تو اب 27 ویں آئینی ترمیم پر واویلا کیوں مچایاجارہا ہے؟ میں تحریک انصاف کے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ جب 8، فروری 2024ء کے عام انتخابات میں فارم 47 میں دھاندلی زدہ نتائج کے ذریعے ملک کے عوام کے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو شکست خوردہ جبکہ عوام کی مستردکردہ جماعتوں کو کامیاب قراردیاگیا تو اس وقت PTI کے رہنماؤں نے غیرت مندوں کی طرح راست اقدام نہیں اٹھایا جس کی سزا عمران خان گزشتہ دوسال سے جیل میں بھگت رہے ہیں۔  اب ملک کوایک انقلاب کی ضرورت ہے، ملک کے 98 فیصد غریب ومتوسط طبقے کے عوام ذہنی وجسمانی طورپر عملی انقلاب کیلئے تیار ہوجائیں اسی میں پاکستان کی بقاء وسلامتی ہے۔  آج میں یہ دعوت فکردے رہاہوں کہ جلد سے جلد مثبت فیصلہ کرلیاجائے ورنہ جتنا وقت گزرے گا عوام کے جذبات سرد پڑتے جائیں گے۔ الطاف حسین ٹک ٹاک پر 347 ویں فکری نشست سے خطاب 15، نومبر2025ء

11/17/2025 2:24:27 PM