Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

ہمیں دوسروں کے عیبوں کواچھالنے کے بجائے ان پر پردہ ڈالنا چاہیے


ہمیں دوسروں کے عیبوں کواچھالنے کے بجائے ان پر پردہ ڈالنا چاہیے
 Posted on: 11/17/2025

ہمیں دوسروں کے عیبوں کواچھالنے کے بجائے ان پر پردہ ڈالنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے”حقیقت پسندی اور عملیت پسندی“کے فلسفے کے تحت 47 برسوں سے استعماریت، فرعونیت، غیرمنصفانہ نظام،78 برسوں سے ملک پر چند خاندانوں کی نسل درنسل حکمرانی اور فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور ملک وقوم کی حقیقی آزادی کیلئے جدوجہد کرتا چلاآرہا ہوں۔  یہ کھلی سچائی ہے کہ پاکستان کے 98فیصد غریب ومتوسط طبقے کے عوام مکمل طورپر کبھی آزاد نہیں ہوئے، انہیں آج بھی نوکر، ماتحت یا غلام سمجھاجاتا ہے جبکہ 2 فیصد اشرافیہ کے پاس ملکی وسائل اورعسکری طاقت بھی ہو تو وہاں نظام انصاف اور مساوات کا اصول نہیں ہوتا اور ایسے ظالمانہ نظام میں 98 فیصد عوام کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ اشرافیہ ملک کے آئین اورقانون سے ماوراء اورآزاد ہوتی ہے،وہاں انصاف کا نظام ناپید ہوتا ہے اور انصاف کی کرسی پربیٹھنے والے ججزبھی طاقتوراشرافیہ کے دباؤمیں آکر ایسے فیصلے دینے پر مجبور ہوتے ہیں جو وہ ملک کے آئین وقانون کے مطابق نہیں دینا چاہتے اوراپنے فیصلوں سے خود آئین وقانون کا تمسخر اڑانے لگتے ہیں۔  ذہنی غلامی: اللہ تعالیٰ کسی بھی قوم کو طاقتوربیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھے، ہرملک کے عوام کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بیرونی حملہ آوروں کامقابلہ کرکے اپنے ملک پر قبضہ کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنادے کیونکہ جس کسی قوم پر بیرونی حملہ آورقابض ہوجاتے ہیں تومقبوضہ عوام، قابض قوتوں کی طرز معاشرت، سماجیات، سوچ وفکراور رہن سہن کے طورطریقوں کے اسیر ہی نہیں ہوتے بلکہ ذہنی غلامی کی کیفیت میں بھی ڈوب جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان دہ عمل یہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، غیرت وحمیت اور انفرادی واجتماعی ڈی این اے اس بری طرح متاثرہوجاتا ہے کہ مقبوضہ قوم کو ذہنی غلامی کے ماحول سے آزاد ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔  1757ء میں انگریز تاجر بن کر ہندوستان میں داخل ہوئے اور انگریزوں کے آنے کے بعد وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام عمل میں لایاگیاجس کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کاقبضہ ہوگیا۔انگریز ہمارے ذہن وفکر پر غالب ہوچکاتھا اورہندوستان پر انگریزوں کایہ غلبہ بلواسطہ یا بلاواسطہ 300 سال تک رہا۔  ہماری ذہنی پسماندگی اورغلامی کا یہ حال ہے کہ اس وقت ملک بھرمیں 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث ومباحثہ چل رہا تھا اور 27 ویں آئینی ترمیم ہوٹلوں، محلوں اورچوراہوں پرموضوع بحث بنی ہوئی تھی کہ اسی دوران برطانوی جریدے دی اکنامسٹ میں ایک صحافی اون بینیٹ جونز کاآرٹیکل شائع ہونے کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث ومباحثہ کے بجائے برطانوی جریدے میں شائع ہونے وا لی رپورٹ کا چرچا ہونے لگ گیاکہ دی اکنامسٹ نے لکھ دیاکہ عمران خان کا کردارکیاتھا اورانکی زوجہ محترمہ نے کس طرح عمران خان پر کالا جادو کرکے قبضہ کیا۔ جوباتیں اس آرٹیکل میں لکھی گئی ہیں کیایہ باتیں ہم پاکستان میں متعدد مرتبہ نہیں پڑھتے رہے؟ یہ باتیں ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن چونکہ برطانوی جریدے نے لکھا ہے تو ہم اس تحریرکے اسیرہوگئے کیونکہ ہم برطانیہ کے غلام رہے ہیں اوربرطانیہ سے آزاد ہونے کے یہ باوجود سمجھتے ہیں کہ برطانوی جریدے میں لگائے گئے تمام الزامات درست ہیں۔  دنیاکے ہرمذہب میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے، اسلام میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت ہے لیکن کیااس کے باوجود ہم اپنے والدین، اساتذہ اور دوست احباب سے جھوٹ نہیں بولتے؟ دین اسلام اوراسلامی تعلیمات کسی پر تہمت لگانے کا درس نہیں دیتی لیکن کیاہم ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگاتے؟ یہ حقیقت ہے کہ دین اسلام سمیت دنیاکے ہرمذہب میں تہمت لگانے کی ممانعت ہے، اگرآپ نے کسی کو چھپ کرکوئی عمل کرتے دیکھ لیاہے تو کیاآپ لاؤڈاسپیکرپر اس کا چرچا کریں گے؟ سرکاردوعالم ؐ نے تہمت لگانے کے عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے، اگرآپ  ؐ کسی کوکسی کاراز افشاء کرتے دیکھ لیتے تو اسے ایسا کرنے سے منع فرماتے اور حکم دیتے کہ کسی کے راز کو اچھالنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالو۔ اگرکوئی فرد اپنے ماضی کے عمل سے توبہ کرکے راہ راست اختیار کرلے تو ہمیں اس کی پرانی زندگی کے قصے بیان کرنا زیب نہیں دیتا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب اپنی تقاریر میں خود کھل کرکہہ چکے ہیں کہ انکی زندگی یورپ کے ماحول میں گزری ہے جو قابل تعریف نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور وہ اب ریاست مدینہ اور دین اسلام کی باتیں کرتے ہیں۔ جب کوئی فرد خود اپنی غلطیوں کااقرارکررہاہواور اپنے ماضی سے تائب ہوکر حق وسچ بیان کررہاہو تو کیااس کی پرانی زندگی کے واقعات کو اچھالتے رہنا مناسب بات ہے؟ اسلامی تاریخ میں حضرت خالدبن ولیدنے قبول اسلام سے پہلے جنگوں میں سینکڑوں مسلمانوں کی گردنیں کاٹیں لیکن اسلام قبول کرنے بعد وہ مسلمانوں کے کمانڈر بنے، اسی طرح ابوسفیان نے مسلمانوں کا بہت نقصان کیا، ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے نبی کریم ؐ کے چچاحضرت حمزہ ؓ کاکلیجہ نکال کرچباڈالا تھا، بعدمیں انہوں نے توبہ کرلی اور اسلام لے آئیں۔ توکیا ہم ان کے ماضی کے کردارکی طرف دیکھیں گے یا نئی زندگی کی طرف دیکھیں گے؟ ہمیں دوسروں کے عیبوں کواچھالنے کے بجائے ان پر پردہ ڈالنا چاہیے کیونکہ کسی کے عیب یاغلط فعل کو اچھالنا ناجائز ہے۔  الطاف حسین ٹک ٹاک پر 348 ویں فکری نشست سے خطاب 16، نومبر2025ء

11/17/2025 1:35:40 PM