Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

’’تھر کے سسکتے بلکتے عوام ‘‘

 Posted on: 3/13/2014   Views:2120
تحریر :ارشد حسین 
تھر پارکر صوبہ سندھ کا ایک ضلع ہے 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آباد ی 955.812(نو لاکھ پچپن ہزار آٹھ سو بارہ )تھی مگر اس میں اضافہ ہوچکا ہے جس میں سے صرف 4.54فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے ۔ 1990ء تک عمر کوٹ او رمیر پور خاص کے اضلاع ضلع تھر پار کر کا حصہ تھے ، جس کا صدرمقام میر پور خاص شہر تھا، 31اکتوبر 1990ء کو اسے دو اضلا ح میر پور خاص او ر تھر پارکر میں تقسیم کر دیا گیا ،تھر پارکر کاضلعی صدر مقام مٹھی ہے ، عمر کو ٹ کو 17اپریل 1993ء کو ایک الگ ضلع بنایا گیا ۔یہ ضلع چار تحصیلوں ڈیپلو ،چھاچھرو، ننگر پارکر اور مٹھی میں تقسیم ہے جبکہ اس کا رقبہ 19638مربع کلو میٹر ہے ۔ اس کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے ۔
تھر پارکر ضلع زیادہ تر زبو ں حالی کا شکار رہتا ہے کبھی سیلاب ،کبھی خشک سالی وقحط ،قدرتی آفت سمیت دیگر مسائل میں گھر ا رہتا ہے جبکہ یہاں کے عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ گندم اور روز مررہ کی اشیائے خوردو نوش اور پانی بھی ان کی پہنچ سے دور ہے اور یہی ان کا مقدر بنا ہوا ہے ۔ تھر پارکرکے عوام اس وقت حکومت کی جانب سے عدم توجہ کی بناانتہائی مصیبت میں گھر ی ہوئی ہے اور گزشتہ چند ماہ سے غذائی قلت اعدم دستیابی اور موزی بیماریوں کی وجہ سے 150سے زائد معصوم بچوں نے تڑپ تڑپ او رسسک سسک کر دم توڑ دیا یوں سینکڑوں مائیں اپنے ہنستے مسکراتے ننھے ننھے جگر کے ٹکڑوں سے محروم ہوگئیں ، بات صرف بچوں تک محدود نہیں ہے بلکہ تھر کے سینکڑو دیہات کسمپر سی کا شکا ر ہیں ،وہاں کے عوام غذائی اجناس اور پانی کے ایک ایک قطرے کو تر س رہے ہیں، سینکڑ وں مائیں بچوں کو لیکر اسپتالوں میں اپنے جگر کے گوشوں کو سینے سے لگائے ان کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی ہیں اور ان کے علاج کی منتظر ہیں جبکہ تھر میں بڑی تعداد میں جانور بھی موزی بیماری میں مبتلاہوکر اور غذا ء کی عدم دستیابی کی بنا پر موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، یوں ان متاثرین کا کسی نہ کسی شکل میں بڑی مقدار میں جانی ومالی نقصان ہورہا ہے ۔ صورتحال یہ تھی کہ ایک جانب تھر پارکر کی عوام پر بجلی گر رہی تھی تو دوسری جانب سندھ حکومت رنگارنگ فیسٹول کاانعقاد کر رہی تھی گانے بجانے ہورہے تھے جس میں اربوں روپوں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا تھا، تھر پارکر کے عوام بھوک وپیاس سے مر رہے تھے تو دوسری جانب فیسٹول میں مرغن کھانے اور مشروبات چل رہتے تھے ۔افسوس کہ ان حکمرانوں کو یہ خبر نہ تھی کہ جس عوام کو سہانے خواب دکھا ئے اور بلند وبانگ دعوے ووعدے کئے تھے کہ انہیں روٹی کپڑا مکان دیا جائے گا مگر خودہی ان دعوؤں او روعدوں کو بھول گئے اور ہمیشہ کی طرح اپنی مستیوں اور رنگینیوں میں مست ہوگئے۔ جب ٹی وی چینلز پر یہ خبرعام ہوئی تو حکمرانوں کو خیال آیا، انہوں نے تھر کا رخ کرلیا وہاں کی غم زداہ عوام کو ایک بار پھر جھوٹی تسلیاں دینے اور ان کی ہمدردیاں وصول کرنے کیلئے اپنے آپ کو ان کے درمیاں چند لمحموں کے لئے سمو لیا ۔ادھر وقاقی حکومت بھی حرکت میں آئی اور اسے بھی تھر پارکر کے سسکتے ،بلکتے، تڑپتے اور بیماریوں میں گھرِے عوام اورمعصوم بچوں کے دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع ملی اور وزیر اعظم سمیت دیگر وفاقی کابینہ کے ارکان اپنے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تھر پارکر پہنچ گئے جہاں ایک دربار لگا ،ایک سمت پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے رفقاء او ردوسری جانب سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ،پی پی پی کے چیئرمین بلا ول بھٹو زرداری ودیگر صوبائی وزرا ء موجود تھے ۔ وزیر اعظم نے کچھ سوال کئے اور بازپرس کی ،کیا ہوا ،کیسے ہوا ،کیوں ہوا کے مصداق ایک رسمی بیٹھک تھی وزیر اعلی نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی جان چھڑائی ، جناب نواز شریف صاحب کبھی اس کوغورتے اور کبھی اس کو پھر کہا کہ اچھا آئندہ خیا ل رکھا جائے اور واقعہ کے ذمہ داران سے جواب طلبی اور رپورٹ لی جائے ۔ اس کے بعد کیا ہوا پھر جرگہ کا اختتام ہوا اور میاں صاحب اپنے ہوائی سفر پر اور وزیر اعلیٰ سندھ رومال سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے اپنی فو ج ظفرموج کے ہمراہ قدآور اور چمکتی ہوئی گاڑیوں میں سوار ہوکر اپنی منزل کی جانب واپس چل دیئے، ادھر تھر پارکر کے غم زدہ متاثرین بلا ول بھٹو زردی صاحب سے کچھ امید لگائے ہوئے ان کے منتظر تھے مگر وہ بھی ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے یوں ’’آئے بھی وہ ،گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا ‘‘ کے مصداق رسم ادا کی گئی اور تھر پارکر کے لئے کچھ اعلانات کئے گئے اور عوام کو سسکتا بلکتا تڑپتی ہوئی حالات میں چھوڑکر یہ جاوہ جا ۔اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی بھی امداد کے اعلان پر کب اور کتنے روز میں عمل درآمد کیا جاتا ہے کتنے قانونی تقاضوں سے گزر نا پڑتا ہے ۔ ادھر تھر پارکر کے متعددیہاتوں کے ہزاروں متاثرین خشک سالی ،بھوک ،پیاس ،بیماریوں اور دیگر مسائل کی بنا نکل مکانی کرکے دیگر شہروں کا رح کرنے پر مجبور ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا اعلاج کیسے کروائیں ہمارے پاس کھانے کیلئے کچھ ہے اور نہ ہی پینے کیلئے ہماری اپنی زندگی عضاب بنی ہوئی ہے ۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جو قوم پرست تنظیمیں اپنے آپ کو سندھ کا سچا سپوت کہلاتی ہیں سندھ دھرتی کی خاطر اپنی جانیں دینے کی باتیں کرتی ہیں مگر ان لوگوں کو آج تھر پار کے مصیبت میں گھر ے یہ عوام اور معصوم ننھے بچے دنیا سے جاتے نہیں دکھائی دے رہے انہیں وہ روتی ہوئی ماؤں کی سینہ کوبی او ر سسکیاں نظر نہیں آرہی ہیں ،کیا یہ قحط زدہ لوگ پاکستانی اور سندھ دھرتی کے باسی نہیں ہیں ان سے نفرت کا اظہار کیوں ؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کب تک غلطیاں ہوتی رہیں گی ؟ اور کیا محض ذمہ داری قبول کرنے سے ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے ؟کیا ایک دوافسران کو معطل کرنے کے بعد ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں؟ اور متاثرین کو انصاف مہیاّہوجاتا ہے ۔یقیناًجب حکمرانوں کی جانب سے مسلسل نظررانداز کیا جاتا رہے اور ناانصافیاں ہوتی رہیں تو پھر عوام پاک افواج کی جانب ہی دیکھتی ہے اسی سے امید بھی ہوتی ہے اور ہو ا بھی کچھ اس طرح کے پاک افواج نے اپنی ذمہ داریاں محسوس کیں وہ جس طرح تھر پارکر کے متاثرین او رمصیبت زداہ خاندان کی امداد اوران کے آنسو پونچھنے میں دن رات مصروف عمل ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ جبکہ تھرپارکر متاثرین کیلئے جہاں دیگر فلاحی ادارے امدادی میں مصروف ہیں وہیں متحدہ قومی موومنٹ واحد جماعت ہے کہ جس نے تھر پارکر کی افسوسناک اطلاع ملتے ہی اس کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن نے ہمیشہ کی طرح دکھی انسانیت کے جذبے کے تحت خدمت کیلئے پہل کی اور سب سے پہلے غذائی اجناس، ادویات اور دیگر روزمراہ کی اشیائے پر مشتمل کئی ٹرک تھر پارکر روانہ کئے جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔کاش حکومت، سندھ فیسٹول میں خرچ کی جانے والی خطیر رقم میں سے آدھی رقم بھی تھر پارکر کے قحط زدہ علاوقوں میں لگا دیتی ،ان آفت زدہ دیہاتوں اور ان کے بلکتے ،تڑپتے اور سسکتے باسیوں کی مزاج پرسی اور مصیبت میں گھر ے لوگوں کی داد رسی کرلیتی تو آج جو اتنی بڑی تعداد میں معصوم بچوں کی شکل میں انسانی زندگیوں کا نقصان ہوا ہے وہ شاید نہ ہوتا ۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی’’ آنکھیں اس وقت کیوں کھلتی ہیں جب کسی کی آنکھیں بندہوجاتی ہیں‘‘۔