بیرون ملک جلاوطن اینکرپرسنز اوریوٹیوبرز کی پاکستانیت کہاں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرون ملک جلاوطن اینکرپرسنز، وی لاگرز اور یوٹیوبرزکی جانب سے عمران خان کی حمایت اور دبے الفاظ میں فوج پر تنقید کا بیانیہ محض ڈالرز کمانے کاذریعہ ہے، ماضی میں یہ عناصر نہ صرف عمران خان کے مخالف تھے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں زمین اورآسمان کے قلابے ملانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔
ان جلاوطن اینکرز خود کوانسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والاظاہرکرتے ہیں لیکن انہوں نے 78 برسوں سے بلوچ عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پرکبھی آوازنہیں اٹھائی البتہ بلوچوں کے بارے میں یہی کہاکہ جب بلوچ ریاست مخالف نعرے لگائیں گے تو پھریہ جائز ہے کہ ان کی آواز کو طاقت سے دبایاجائے۔ کبھی نہیں بتایاکہ جن غریب بلوچوں کا کسی علیحدگی پسند تنظیم سے تعلق نہیں تھا انہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا لیکن انہوں نے اپنے پروگراموں میں کبھی ان مظالم پر بات نہیں کی۔
ایک ڈیڑھ سال قبل جب لاپتہ بلوچوں کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اوربچوں پرمشتمل قافلہ بلوچستان سے پیدل چل کر اسلام آباد پہنچا، انکے ہاتھوں میں اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویرتھیں اور وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے فریادیں کررہی تھیں۔میراسوال ہے کہ کیا یہ بلوچ خواتین پاکستانی نہیں تھیں؟ پنجاب سے کتنے لوگوں نے لاپتہ بلوچوں کی ماؤں، بہنوں اوربیٹیوں کے دھرنے میں پہنچ کران سے یکجہتی کااظہارکیا؟ انکی پاکستانیت کدھر چلی گئی تھی؟
آج جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اینکرپرسنز، وی لاگرز اوریوٹیوبرز اپنے پروگراموں میں خواتین کی حرمت اور احترام کی باتیں صرف اس لئے کررہے ہیں کہ یوٹیوب چینل پر انکے تبصرے عمران خان کے چاہنے والے سنیں گے لیکن جب بلوچ مائیں بہنیں سردی، گرمی اوربارش میں اسلام آباد میں احتجاج کررہی تھیں تو ان کے پاس جانے والا کوئی نہیں تھا، ان جلاوطن اینکرز نے اپنے پروگراموں میں ان کا کبھی اس طرح تذکرہ نہیں کیاجیسا آج وہ عمران خان کی بہنوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کررہے ہیں،مائیں بہنیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہواکرتی ہیں تو آخرماؤں، بہنوں اور بیٹیوں میں فرق کیوں کیاجارہاہے؟
یہ جلاوطن اینکرز جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان کا نام لیتے ہیں لیکن کبھی نہیں بتاتے کہ پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ نظام، پاکستان کی 78 سالہ تاریخ اورسانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی 54 سالہ تاریخ میں الطاف حسین کے علاوہ کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کا غریب ومتوسط طبقے سے تعلق ہو، جس نے ان غریب ومتوسط طبقے کے ریڑھی بان، رکشہ وٹیکسی ڈرائیور، فروٹ اورگنے کا جو بیچنے والے تعلیم یافتہ افراد کو منتخب ایوانوں میں بھیجا جن کے پاس ڈگریاں تھیں لیکن انہیں سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھاگیا تھا۔ ان جلاوطن اینکرزکے تعصب کا یہ حال ہے کہ جب آپ ان سے سوال کریں گے کہ غریب طبقے کے لوگوں کو کس نے ایوانوں میں بھیجاتو وہ کہیں گے کہ ہاں الطاف حسین اورایم کیوایم نے غریب ومتوسط طبقے کے افرادکو ایوانوں میں بھیجا توہے لیکن یہ ایم کیوایم دہشت گرد اور بھتہ خور جماعت ہے۔
الطاف حسین نے ایک دن میں تحریک بناکر الیکشن نہیں لڑا، الطاف حسین نے 1978ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا اورجب ایم کیوایم نے 1987ء میں حق پرست کے نام سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیاتو اس وقت الطاف حسین جھوٹے الزام میں جیل میں قیدتھا،اس کی مرکزی کمیٹی روپوش تھی اوراس کی تنظیم کے خلاف آپریشن جاری تھا،ایم کیوایم کے بجائے”حق پرست“ کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا، بینروں پر بھی صرف یہ لکھاہوتاکہ ”الطاف حسین کے حمایت یافتہ امیدوار“۔ کراچی اورحیدرآباد کے عوام نے الطاف حسین کے حمایت یافتہ حق پرست امیدواروں کواپنے ووٹ دیکر اس قدربھاری اکثریت سے کامیاب کرایا کہ کراچی اورحیدرآباد کے میئرز وڈپٹی میئرز بلامقابلہ منتخب ہوئے۔اس وقت ایم کیوایم کا کوئی مرکزی آفس نہیں تھا، میری رہائش گاہ نائن زیرو سے ہی تنظیمی کام کیاجاتا تھا تو پھر اتنی بڑی کامیابی کیسے مل گئی؟ ایم کیوایم کی اس کامیابی کوتسلیم کرنے کے بجائے مخالفین کہتے ہیں کہ ایم کیوایم والے گن پوائنٹ پر ووٹ ڈلواتے تھے لیکن کیاکوئی ہزاروں لوگوں سے گن پوائنٹ پر ووٹ ڈلواسکتا ہے؟ 8، فروری 2024ء کو عمران خان جیل میں قید تھے کیاان کے حمایت یافتہ امیدواروں کوبھی عوام نے بندوق کی نوک پر ووٹ ڈ الے تھے؟
ایم کیوایم پر بہتان تراشی کرنے والے بتائیں کہ کیاغریب ومتوسط طبقے اٹھنے والی لیڈرشپ ڈاکوہوسکتی ہے؟ کیاڈاکوعوام میں جاتے ہیں یا نظریہ دینے والی غریب ومتوسط طبقے کی لیڈرشپ ہی عوام میں جانے کی ہمت رکھتی ہے؟
ماضی میں جب فوج کی سیاست میں مداخلت پر کوئی تنقید کرتا تھا تو یہی جلاوطن اینکرز انہیں غدار کہاکرتے تھے، یہ جب جب ایم کیوایم کا نام لیں گے تو قاتل، دہشت گرد، بھتہ خوراور انڈین ایجنٹ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، آخر کیوں؟ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ایم کیوایم اورالطاف حسین 47 سالہ جدوجہد کو مائنس کردیتے ہیں کیونکہ ان کو علم ہے کہ الطاف حسین ریڈ لائن ہے،اگر وہ الطاف حسین اورایم کیوایم کی حمایت میں دولفظ بھی بولیں گے تو فوج سے ان کے تعلقات کی بحالی مشکل ہوجائے گی اور پرانی تنخواہ پر کام کرنے کا ان کادھندا ختم ہوجائے گااسی لئے یہ جب بھی الطاف حسین اورایم کیوایم کا نام لیں گے تو بہتان تراشی کریں گے۔
میں آج پھران جلاوطن اینکرز، وی لاگرز اوریوٹیوبرز کو چیلنج کررہاہوں کہ اگر وہ اپنے الزامات میں سچے ہیں اور ان میں سچائی کاسامنا کرنے کی ہمت ہے تو وہ مجھ سے مناظرہ کرلیں، میں ثابت کردوں گا کہ یہ سب فوج کے ایجنٹ تھے ورنہ انہیں ایم کیوایم پر الزامات ثابت کرنے ہوں گے۔
یہ جلاوطن اینکرز الطاف حسین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اورجھوٹے الزامات اس لئے لگاتے ہیں کہ الطاف حسین کا تعلق لوئرمڈل کلاس سے ہے، الطاف حسین نے ہمیشہ فرسودہ جاگیردارانہ نظام اورفوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی اسی وجہ سے آج تک مجھ پر بہتان تراشی کا عمل کیاجارہا ہے۔ یہ کبھی نوجوان نسل کونہیں بتاتے کہ الطاف حسین پاکستان کا واحد سیاسی لیڈر ہے جس نے غریب ومتوسط طبقے کے ڈاکٹروں، انجینئرز، پروفیسرز کے علاوہ تعلیم یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں، رکشہ چلانے والوں اور گنے کاجوس بیچنے والوں کو منتخب ایوانوں میں بھیجا جو اپنی انتخابی مہم کیلئے ایک بینرتک کے اخراجات برداشت کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ یہ اینکرزملک کی کسی ایک جماعت کا نام بتادیں جس نے غریب ومتوسط طبقے کے تعلیم یافتہ افراد، ہاریوں، کسانوں اورمحنت کشوں کو سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی میں بھیجاہو؟ الطاف حسین کا جرم یہی ہے کہ اس نے فرسودہ جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ نظام، موروثی نظام اورکرپشن کے خلاف عملی جدوجہد کی ہے۔
نوازشریف جب میدان سیاست میں آئے تو ان کے خاندان کی ایک اتفاق فاؤنڈری تھی لیکن سیاست میں آنے کے بعد ان کی ملک اوربیرون ملک جائیدادوں میں اضافہ ہوگیااسی طرح آصف علی زرداری اپنے والد کے بمبینو سینما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کیاکرتے تھے، سیاست میں آنے کے بعد مسٹرٹین پرسنٹ بن کرمال بنانے لگے جبکہ الطاف حسین جس نے کوئی کرپشن نہیں کی اس کانام اتنا خراب کیاگیا کہ میڈیاپر میرانام لینے اور تصویر شائع ونشر کرنے پر پابندی ہے، میرے گھرنائن زیرو کو seal کردیاگیا بعد میں آگ لگاکربلڈوز کردیا گیا، پاکستان کے کسی لیڈر کا نام بتایاجائے جس کے گھرکو بلڈوز کیاگیاہو؟
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 350ویں فکری نشست سے خطاب
22،نومبر 2025ء