فوج نے سابق ڈی جی ISI جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کرتے ہوئےانہیں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ریاست کی سلامتی اورملکی مفادات کو نقصان پہنچانے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی، اختیارات اور وسائل کے غلط استعمال اور بعض افراد کو ناجائز نقصان پہنچانے کا ارتکاب کرنے پر جوسزادی ہے اس پر میرا یہ کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید نے یہ سارے کاسارا غلط عمل اکیلے نہیں کیاہوگا،ان کے ساتھ اور بھی لوگ شامل ہوں گےجنہوں نے یہ سب کچھ کرنے میں انکی سہولت کاری کی ہوگی۔ مجھے جنرل فیض حمید سے کوئی ہمدردی نہیں، میراسوال یہ ہے کہ فیض حمید کے سہولت کاروں، معاونت اور مدد کرنے اوران کے احکامات پر عمل درآمد کرنے والوں کوکوئی سزا کیوں نہیں دی گئی؟
1999ء میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔ 12، اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف سری لنکا کےدورے پرتھے، ان کی غیرموجودگی میں وزیراعظم نوازشریف نے انتہائی عجلت میں جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے برطرف کرکے اُس وقت کے ڈی جی ISI لیفٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقررکردیا۔جنرل پرویزمشرف وطن واپس آرہے تھے لیکن وزیراعظم نوازشریف نے حکم دیا کہ پرویز مشرف کے جہاز کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر لینڈنگ نہ کرنے دی جائے۔ اس ایکشن کے بعد جنرل پرویزمشرف کے ساتھی جرنیلوں نے جواب میں ملک پر ٹیک اورکرلیا اور تمام کورکمانڈرز کو احکامات دیئےگئےکہ تمام ائیرپورٹس، پاکستان ٹیلی وژن،ریڈیو پاکستان اورتمام سرکاری تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیاجائے اور نوازشریف کو گرفتارکرلیاجائے۔جس پر جرنیلوں نے وزیراعظم نوازشریف کوگرفتار کیا،جب جنرل ضیاء الدین بٹ آرمی چیف کاچارج لینے جی ایچ کیو پہنچے توانہیں بھی حراست میں لےلیا گیا جبکہ کورکمانڈر کراچی جنرل مظفرعثمانی نے کراچی ایئرپورٹ پرکنٹرول کرکے جنرل پرویز مشرف کےجہاز کی کراچی میں لینڈنگ کے انتظامات کیے اور انہیں دوسرے طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا گیا۔
12 اکتوبر 1999ء کوجب فوج نے ملک پر ٹیک اوورکیا اس وقت جنرل پرویزمشرف توفضاء میں اپنے طیارے میں تھے اور گراؤنڈ پر ٹیک اوور جن فوجی جرنیلوں نے کیاتھاان میں جنرل محمد عزیزخان، جنرل محمود احمد، جنرل شاہد عزیز، جنرل افتخارحسین شاہ، جنرل خالد مقبول، جنرل یوسف خان اور جنرل مظفرعثمانی شامل تھے۔
بعد میں نوازشریف جب دوبارہ برسراقتدار آئے توانہوں نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین بغاوت کامقدمہ قائم کیا، ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ، آئین کومعطل یا التواء میں ڈالنےکی انکوائری کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ، لاہورہائی کورٹ اورپشاور ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت تشکیل دی جاتی ہے جس نے دسمبر 2019ء میں صرف جنرل پرویز مشرف کوتو سنگین غداری کا مرتکب قراردیکر سزائے موت سنادی لیکن جن جرنیلوں نے گراؤنڈ پر اصل میں ٹیک اوورکیاتھا اورحکومت کاتختہ الٹنےمیں مرکزی کرداراداکیا، اس میں معاونت کی،نوازشریف کو گرفتارکیا اور ملک کا نظام سنبھالا ان میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کی پہلی شق کے مطابق”کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت کےمظاہرے سے یا کسی اور غیر آئینی ذریعے سے آئین کو منسوخ کرے، معطل کرے، یا التواء میں رکھے، یا ایساکرنےکی کوشش کرے یا اس کی سازش کرے، وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا،“ ایسے شخص کےخلاف غداری کامقدمہ قائم ہوگا جس کی سزا موت ہوگی لیکن آرٹیکل 6کی ہی دوسری شق میں یہ بھی واضح ہےکہ ” کوئی بھی شخص جو شق (1) میں ذکر کردہ افعال یعنی آئین کو منسوخ یا معطل کرنے، التواء میں رکھنے، یا ایسا کرنے کی سازش میں مدد کرے یا ان میں شریک ہویا سہولت کاری کرے وہ بھی اسی طرح سنگین غداری کا مرتکب ہوگا“۔
میراسوال ہےکہ اگرآئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب ہوئے تھے تو پھرآرٹیکل 6 کی ذیلی شق 2 کے تحت ان کے ساتھ سہولت کاری یامعاونت کرنے والےجرنیلوں کو بھی سنگین غداری کا ارتکاب کرنےپر سزا کیوں نہیں سنائی گئی؟سپریم کورٹ نے اکیلےجنرل پرویز مشرف کوسزادینے پر خصوصی عدالت کے فیصلےکو معطل کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ نےیہ کیوں نہیں کہاکہ جنرل پرویز مشرف اکیلے آئین معطل کرنےکےمرتکب نہیں ہوسکتے لہٰذا انکی معاونت،مدد اور سہولت کاری کرنے والوں کو بھی سزا دی جائے؟
اسی طرح 11دسمبر2025ء کو فوج کے ایک لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کیاگیا اورملٹری کورٹ نے انہیں چارالزامات کےتحت 14سال قید بامشقت کی سزا سنائی، یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتاکہ جنرل فیض حمید نے یہ سارے کاسارا غلط عمل اکیلےکیاہوگا؟تو پھر جنرل فیض حمید کی سہولت کاری، معاونت کرنے اوران کے غلط اورناجائز احکامات پرعمل کرنےوالےاہلکار کہاں گئے؟ان جرائم میں سہولت کاری کرنے والوں کو سزاکیوں نہیں دی گئی؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جنرل فیض حمید کی سزا کے بعد عمران خان کا مستقبل کیاہوگا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔قابل غوربات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت عمران خان کی رہائی کیلئے کیا اقدامات کررہی ہے۔
9، دسمبر 2025ء کو اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی بہنوں اوران کے ساتھ موجود افرادپر پولیس وانتظامیہ نے واٹرکینن کے ذریعے ٹھنڈا پانی پھینک کرجوکارروائی کی وہ افسوسناک تھی۔ اس پر پی ٹی آئی کے لیڈروں کابھی کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ماضی میں انہوں نے چھتوں پراذانیں اور پھر حبیب جالب کے اشعار کی صورت میں احتجاج کااعلان کیا تھا۔ اب انہوں نے 20دسمبر2025ء کو قومی کانفرنس منعقدکرنے کااعلان کیا ہے۔ اس پر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیاچاہتے ہیں؟ کیاوہ واقعی اپنے لیڈرکی رہائی چاہتے ہیں یانہیں؟
عمران خان نے ماضی میں مجھ پر بے شمار الزامات لگائے، بارہا مجھے ڈرون حملے میں مارنے کی بات کہی اس کے باوجود میں عمران خان اوران کی بہنوں کی حمایت کرتارہالیکن اس پر شکریے کے دولفظ بولنےکے بجائے آج بھی MQM پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں۔ کیاPTI والوں کے پاس ظرف نام کی کوئی چیز نہیں ہے؟
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 362 ویں فکری نشست سے خطاب
12، دسمبر2025ء