یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو خود کوجمہوریت کی علمبردار کہتی ہیں وہ جمہوریت کے بجائے آمریت کی پروردہ بن چکی ہیں۔ ان کے تمام فیصلے اور اقدامات عوام کے مفاد کے بجائے اپنے اوراپنے خاندانوں کے مفاد کے لئے ہیں۔ یہ موروثیت کی سیاست کررہی ہیں اوران میں خاندانوں کی آمریت اوربادشاہت قائم ہے۔
یہ موروثیت اورخاندانوں کی اجارہ داری اسلئے قائم ہے کیونکہ عوام نے کبھی اس کے خلاف آواز بلند نہیں کی، ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جمہوریت کے نام پر خاندانوں کی آمریت کے خلاف آوازکیوں نہیں اٹھائی اور جمہوری احتجاج کے ذریعے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ دوسرے لوگوں کوبھی آگے لایاجائے۔ جمہوریت کی بات کرنے والےخاندانوں کوپہلے اپنے اندر جمہوریت لانی چاہیے۔
جواپنی پارٹی میں جمہوریت رائج نہیں کرتے اورموروثیت کاطرزسیاست اختیار کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی اجارہ داری برقراررکھتے ہیں، پھر ان میں اورفوجی آمروں میں کیافرق ہے؟
میں نے 47سال پہلے بھی یہی کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی بیماری یہ فرسودہ جاگیردارانہ نظام اورچند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ جمہوریت کی علمبردارپیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن جوجھوٹے نعروں کے ذریعے عوام کوبیوقوف بناتی ہیں لیکن جتنے بھی فیصلے کرتی ہیں وہ عوام کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے مفاد کے لئے کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن نے ماضی میں بھی یہی کیا اوریہ جماعتیں ماضی کی طرح آج بھی عوام کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے مفادات اوراس کے تحفظ کے لئے آئین میں ترمیم کررہی ہیں۔
میں عوام سے سوال کرتاہوں کہ کیا وہ اب بھی ان جماعتوں کوجمہوری پارٹی قرار دیں گے جوآج بھی اپنے مفاد کے لئے آئین میں ترامیم کررہی ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں کئی بار مارشل لاء نافذ ہوئے اورملک جمہوریت کی پٹری سے اترا لیکن اس میں زیادہ قصوروار وہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنماہیں جنہوں نے اس میں سہولت کاری کی ۔
میں نے کرپٹ اقتدارمافیا کے خلاف آواز اٹھائی تومجھے ملک دشمن، دہشت گرد ، غدارکہا گیا، مجھ پر نجانے کیا کیا بہتان لگائے گئے لیکن الطاف حسین نے جوجوباتیں کیں، آج پوراملک وہ باتیں کررہاہے اور میری باتوں کی سچائی کوتسلیم کررہا ہے۔ میں یہی کہوں گاکہ جنہوں نے مجھ پر الزامات اوربہتان لگائے انہیں آج اپنے دل کوصاف کرناچاہیے اور میرے بارے میں اپنی غلط فہمیوں کودور کرناچاہیے۔ لوگ ساؤتھ افریقہ کے رہنما نیلسن مینڈیلا کی بات توکرتے ہیں لیکن اس کاعمل نہیں دیکھتے جس نے ساؤتھ افریقہ میں سیاہ فام انقلاب برپا کرنے کے باوجود سفید فام باشندوں سے انتقام نہیں لیا بلکہ Truth and Reconciliation Commission یعنی سچ اور مفاہمت کمیشن قائم کیا کہ آئیں اوراپنی غلطیوں کوتسلیم کریں۔ میں بھی کہوں گاکہ آج پاکستان میں بھی Truth and Reconciliation Commission قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 344ویں فکری نشست سے خطاب
8 نومبر 2025