مسلح افواج کے سربراہان سے پاکستان کی سلامتی وبقا ء کی بھیک مانگتا ہوں،
خدارا اپنے ہم وطنوں سے دھونس دھمکیوں کی زبان میں بات کرنے کے بجائے پیار محبت کی زبان میں بات کیجئے
پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اعلانات اور اقدامات کرنے سے پہلے ہمیں یہ سوچناہوگاکہ پاکستان میں دہشت گردی کہاں سے آئی؟ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ جب افغانستان پہنچی تواس وقت پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دوسپرطاقتوں کے درمیان جنگ کاحصہ بننے کافیصلہ کیا۔سپرطاقتوں کے مفادکے لئے افغانستان میں جہاد کے نام پر پاکستان میں جہادی تنظیمیں اورجہادی مدرسے قائم کئے گئے، پاکستانیوں کی بھرتی کی گئی اورانہیں ٹریننگ دیکر افغانستان بھیجاگیا جس کے لئے پاکستان کوبوریوں میں بھربھر کے ڈالرملے۔ حالانکہ اس جنگ سے پاکستان کاکوئی تعلق نہیں تھا۔ سوویت یونین افغانستان سے چلاگیا۔ اس کے بعد بھی افغانستان کے جوحالات ہوئے ،وہاں امریکہ اورمغربی اتحادی ممالک کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی ۔ اس کے خلاف طالبان بنائے گئے ، ان کی سرپرستی کی گئی اوراب ان طالبان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی ، اسلحہ اور منشیات کافروغ ہوا۔آج پاکستان جس قسم کے حالات کاشکارہے وہ افغان جنگ کی پالیسیوں کانتیجہ ہے ۔ پاکستان کی فوج نے کئی آپریشن کئے لیکن ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکی ، آج بھی ملک میں طالبان موجود ہیں۔
فوج نے بلوچوں کے حقوق کی تحریکوں کوکچلنے کے لئے بلوچستان میں بھی کئی برسوں تک آپریشن کئے، انہیں لاپتہ کیاگیا، ماہ رنگ بلوچ نے لاپتہ بلوچوں کے لئے دھرنے اورپرامن احتجاجی مظاہرے کئے تواسے بھی گرفتارکرلیاگیااوراسے دہشت گرد اورعلیحدگی پسند تنظیموں سے جوڑاجارہا ہے۔ جبکہ ماہ رنگ بلوچ نے ہمیشہ یہی مطالبہ کیاتھاکہ لاپتہ بلوچوں کورہاکیاجائے یاانہیں عدالتوں میں پیش کیاجائے ۔ماہ رنگ بلوچ نے آئین پاکستان کے تحت بلوچوں کے حقوق مانگے تھے۔ افسوس کہ ماہ رنگ بلوچ کوبھی دہشت گرد قراردیاجارہاہے اوراس کے بارے میں غیرمناسب جملے استعمال کئے جارہے ہیں۔ کئی آپریشنوں کے بعد اب بلوچستان میں ضرب عضب کی طرز پر فوجی آپریشن کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان اب کسی بھی فوجی آپریشن کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی صورتحال پہلے ہی خراب ہے۔لہٰذا آپریشن کی باتیں نہ کیجئے، پیاراورامن کادورچلائیے۔
اس وقت ملک کویکجہتی کی ضرورت ہے ۔بلوچ، پشتون،پنجابی، سندھی ، مہاجر، سرائیکی ، کشمیری، گلگتی اوربلتستانی سب ایک گلدستے کے پھول ہیں، آدھا گلدستہ 1971ء میں ٹوٹ چکاہے ، ہمیں باقی ماندہ گلدستے کوٹھیک رکھنا چاہیے۔
لہٰذا میں مسلح افواج کے سربراہان سے پاکستان کی سلامتی وبقا ء کی بھیک مانگتاہوں، خدارا اپنے ہم وطنوںسے دھونس دھمکیوں کی زبان میں بات کرنے کے بجائے پیار محبت کی زبان میں بات کیجئے، ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے بجائے ان سے بات کیجئے ۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر فکری نشست نمبر 260 سے خطاب
24مئی 2025ء