Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

الطاف حسین ۔۔۔جہدِ مسلسل (تحریر: محسن ؔ وحدانی)

 Posted on: 9/17/2013   Views:2555
الطاف حسین کی ساٹھویں سالگرہ پر خصوصی تحریر

الطاف حسین ۔۔۔جہدِ مسلسل 

تحریر: محسن ؔ وحدانی

17ستمبر 1953ء کو کراچی میں جہانگیر روڈ کے ایک سرکاری کوارٹر میں مقیم، آگرہ (یو پی) سے ہجرت کرکے آنے والے نذیر حسین کے ہاں ان کی زوجہ محترمہ خورشید بیگم کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام الطاف حسین رکھا گیا۔ نذیر حسین اور خورشید بیگم دونوں کا تعلق مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے پایہ تخت آگرہ سے تھا اور دونوں وہاں کے معروف مذہبی گھرانوں کے چشم و چراغ تھے۔ نذیر حسین کے والد مفتی محمد رمضان ایک جید عالم دین تھے تو خورشید بیگم کے والد حاجی حافظ رحیم بخش شہر کی ایک مشہور اور دیندار شخصیت تھے۔ نذیر حسین تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریلوے کے محکمہ میں ملازم ہو گئے اور تقسیم ہند کے وقت اسٹیشن ماسٹر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مملکت خداداد کی محبت میں کراچی آگئے اور یہاں ایک فیکٹری میں ملازمت کرلی۔ یہ چھوٹا سا دیندار گھرانہ اپنی محدود خواہشات اور سادہ ضروریات کے باعث معمولی آمدنی کے باوجود خوشحال گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ 13مارچ 1967ء کو نذیر حسین کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت الطاف حسین آٹھویں جماعت میں متعلم تھے اور خاصی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد الطاف حسین نے پہلے سے زیادہ لگن اور محنت سے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول کو دی۔ انہوں نے گورنمنٹ کمپری ہینسو اسکول، عزیز آباد نمبر 8اور گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، جیل روڈ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیشنل کالج کراچی میں فرسٹ ائیر، پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں سٹی کالج، ناظم آباد سے سیکنڈ ائیر کا امتحان پاس کیا۔ اور اسکے بعد اسلامیہ سائنس کالج کراچی سے 1974 ؁ء میں بیچلرز کا امتحان پاس کرکے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1979 ؁ء میں بی فارمیسی کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ایم فارمیسی میں داخلہ لیا مگر سیاسی مخالفتوں اور دیگر دشواریوں کے باعث یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اور ایم اے جناح روڈ پر واقع سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ ہسپتال میں ٹرینی کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے دو ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں میں بھی خدمات انجام دیں۔ قبل ازیں 1970-71ء کے دوران جنرل یحییٰ خان کی لازمی فوجی سروس اسکیم کے تحت انہوں نے کراچی کینٹ اور حیدر�آباد کینٹ میں فوجی تربیت پائی اور جنگ 1971 ؁ء کے دوران وہ مکران کے ساحلی شہر سونمیانی میں تعینات تھے کہ نیشنل کیڈٹ سروس کو 57بلوچ رجمنٹ کی حیثیت حاصل ہو گئی مگر پاک فوج کا یہ مجاہد زیادہ عرصہ عسکری ماحول میں نہ رہ سکا اور بوجوہ واپس کراچی آ کر تعلیمی مشاغل میں مصروف ہوگیا۔ 

کراچی یونیورسٹی میں بی فارمیسی کرنے کے دوران الطاف حسین اسلامی جمعیت طلباء کے یونیورسٹی پر غلبہ اور آمرانہ طرزِ سیاست سے سخت نالاں تھے۔ وہ یونیورسٹی کی کھلی فضا میں رہ کر مذہبی تنگ نظری اور ہر قسم کے تعصبات سے اپنا دامن چھڑا چکے تھے مگر جمعیت پر تشدد حربے استعمال کرکے آزاد خیال طلبا ء کو اسی تنگ نظری کے راستوں پر چلانا چاہتی تھی۔ علاوہ ازیں الطاف حسین اور ان کے ہم خیال ساتھی ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹہ سسٹم کے سخت خلاف تھے جس کا نشانہ سندھ کے شہروں، بالخصوص کراچی ، حیدر�آباد اور سکھر کے اُردو اسپیکنگ گھرانوں کے نوجوان تھے اور وہ اس سسٹم کی بدولت میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے تھے۔ جبکہ ان سے بہت کم مارکس لے کر کامیاب ہونے والے دیہاتی طلباء کو باآسانی داخلے مل جاتے تھے۔ یہی حال سرکاری ملازمتوں کا تھا جہاں میرٹ کا خون کرتے ہوئے محض دیہی علاقوں سے تعلق کی بنیاد پر نوکریاں تقسیم ہو رہی تھیں۔ الطاف حسین کا گرم خون یہ کھلی ناانصافی برداشت نہ کر سکا اور انہوں نے ہم خیال طلباء کے حلقے میں ایک نئی طلباء تنظیم قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دوستوں کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تو الطاف حسین کے دل کی کلی کھل گئی اور انہوں نے مل جل کر چند سو روپے جمع کرکے 11 جون 1978 ؁ء کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ دوستوں نے انہیں بانی و چیئرمین منتخب کیا اور اس طرح ایک طویل جدوجہد کا آغاز ہوا۔ الطاف حسین کا خاندان 1970ء میں عزیز آباد نمبر8 منتقل ہوچکا تھا جہاں مکان نمبرR-494 میں ان کا قیام تھا۔ یہ مکان پہلے طلباء سیاست کا مرکز بنا اور بعد ازاں جب 18مارچ 1984ء میں اسی طلباء تنظیم کے بطن سے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت نے جنم لیا تو یہی گھر اس کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ جماعت کے مرکزی دفتر کے طور پر الکرم اسکوائر میں جگہ کا انتظام کیا گیا اور کافی عرصہ وہاں مرکزی عہدیداران کی نشست بھی رہی مگر چونکہ الطاف حسین کے گھر پر علی الصبح ہی کارکنان ،عوام اور ہمدردوں کا تانتا بندھ جاتا تھا، لہٰذا ان کا دفتر جانا مشکل ہوجاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ الطاف حسین کی والدہ زیادہ سے زیادہ وقت انہیں اپنے قریب رکھنا چاہتی تھیں اور خود الطاف حسین بھی والدہ کی خدمت کو ایک سعادت سمجھتے تھے اوران کا ہر حکم بجالانے کو عبادت تصو رکرتے تھے۔ 5دسمبر1985ء کو اس عظیم ماں کا انتقال ہوگیا جس کی آغوش میں اس قوم کے بطل جلیل نے آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی تھی۔ والدہ کے انتقال نے الطاف حسین پر سکتہ طاری کردیا اور چند روز وہ کھوئے کھوئے سے رہے مگر جلد ہی قومی ذمہ داریوں کی دستک نے انہیں جھنجھوڑ کرپھر سے ان ہی دشوارراہوں پر رواں دواں ہونے پر مجبور کردیا جن پر وہ عرصے سے گامزن تھے۔ الطاف حسین مہاجروں کے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے اور یہ کچھ غلط نہ تھا۔ اس ملک میں جنرل ایوب خان سے لے کر آج تک عموماً وہی لیڈر پیدا ہوتے رہے ہیں جو برادری ازم، فرقہ واریت یا علاقائیت کی بنیاد پر تعصبات کی عمارتیں کھڑی کرتے ہے ہیں۔ ایوب خان نے ہزارہ ڈویژن کے لوگوں کو دارالحکومت کراچی میں آباد کیا اور بیشتر عہدے ہزارے والوں کو دئیے۔ بھٹو صاحب نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے لسانی تعصب پیدا کیا او رمہاجروں کی حق تلفی کی۔ وہ لاڑکانہ کو پیرس بنانا چاہتے تھے مگر وہ ایوب خان کی طرح دارالحکومت کو اپنے گھر سے قریب کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ ضیاء الحق نے برادری ازم کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا اور ان کے دور میں حکومت ’’بزم آرائیاں‘‘ بن کر رہ گئی تھی۔ فرقہ وارانہ تعصبات کے فروغ میں ان کا کردار ہر پاکستانی پر اظہر من الشمس ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پر ان کی نوازشات محض ان کی جہادی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ پس پرردہ ان کے ذاتی عقائد بھی تھے۔ بلوچستان اور سرحد میں بھی قومیت کی بنیاد پر سیاست ہورہی تھی اورآج تک ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ ANP اب محض پختون قوم پرست جماعت بن گئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سندھی جماعت اورمسلم لیگ پنجابی جماعت بن چکی ہے۔ مہاجرین نے ہندوستان میں رہتے ہوئے یہ جاننے کے باوجود پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دیں کہ ان کے علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ وہ ہجرت کرکے پاکستان کے دارالحکومت کراچی آئے تھے اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی آباد ہوئے، کیونکہ اس وقت تک صوبائی تعصبات کا زہرفضا میں نہ پھیلا تھا۔ بعد ازاں انہیں بوجھ سمجھ کر سر سے اتار پھینکنے کی کوششیں کی گئیں تو کسی نہ کسی کو تو ان کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھنا ہی تھا او ریہ کام الطاف حسین نے بخوبی سرانجام دیا۔ مگر 13 سال کے اندر ہی انہیں یہ احساس ہوگیا کہ ملک کے دیگر لسانی گروہ بھی درحقیقت مفاد یافتہ نہیں بلکہ یہ فقط 2%جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور استعمار کے گماشتوں کا ٹولہ ہے جو 98فیصد عوام پر راج کر رہا ہے اور ان کا خون چوس رہا ہے ۔ تو انہوں نے تمام تنظیمی ساتھیوں اور عہدیداروں سے مشورہ کرکے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنا کر ملک بھر کے غریب اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی اور انہیں ان کے حقوق دلانے کا اعلان کیا۔ 26 جولائی 1997ء کو اس اعلان کے ساتھ ہی مفاد پرست اور جاگیردارانہ ماحول کے پروردہ، خاندانی سیاست کے خوگر، اشرافیہ کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آگیا اور سازشیں کی جانے لگیں کہ ایم کیو ایم کو محدود ہی رکھا جائے۔ وہی لوگ جو ایم کیو ایم کو ایک علاقائی اور لسانی جماعت ہونے کاطعنہ دیتے تھے، اب اس کے نئے کردار سے خوفزدہ ہو کر اسے دہشت گردی، بھتہ خوری، ملک دشمنی اور طرح طرح کے جھوٹے الزام دینے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ الطاف حسین کو بے شمار ذہنی و جسمانی تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ سب سے پہلے 14اگست1979ء کو انہیں بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لانے کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔اور 2اکتوبر 1979ء کو 9ماہ قید اور 5کوڑوں کی سزا دی گئی۔ قید کے دوران حکومت نے ان سے معاہدہ کیا اور معافی مانگ کر رہائی کی پیشکش کی، مگر انہوں نے کہا کہ میں یہ مطالبہ بار بار کرتا رہوں گا۔ 28 اپریل 1980ء کو اپنی سزا مکمل کرکے ہی جیل سے رہائی حاصل کی اور ضیاء الحق کی جابرانہ حکومت انہیں شکست دینے میں ناکام رہی۔ الطاف حسین اپنی دھن کے پکے تھے۔ لہٰذا دوسری مرتبہ انہیں حیدر آباد پکا قلعہ کے تاریخی خطاب کے بعد 31 اکتوبر 1986ء کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس بار کراچی و حیدر آباد کے لاکھوں افراد الطاف حسین کے ساتھ تھے۔ قبل ازیں نشتر پارک میں 8اگست 1986ء کے تاریخی جلسہ عام میں الطاف حسین کے خطاب کے بعد سے سندھ بھر میں رہائش پذیر استحصال کا شکار مہاجرین اور ان کی اولادیں الطاف حسین کو ایک نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہی تھیں۔ عوامی دباؤ پر حکومت وقت الطاف حسین کی مشروط رہائی کے لیے تیار ہو گئی۔ مگر انہوں نے مشروط رہائی قبول نہ کی۔ بالآخر ایک پر زور عوامی تحریک کے نتیجے میں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو 24فروی 1987ء کو تمام الزامات واپس لے کر رہا کیا گیا۔ الطاف حسین قید و بند کی صعوبتوں سے گھبرانے والے نہ تھے لہٰذا اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دن رات کوشاں رہے اور ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کو للکارتے رہے۔ آمروں کی قوت برداشت بہت کم ہوتی ہے۔ ضیاء الحق بظاہر منکسر المزاج مگر درحقیقت ایک کینہ پرور شخص تھا۔ لہٰذا اسی سال بڑے پیمانے پر ایم کیو ایم کے کارکنوں اور عہدیداروں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں اور 20اگست1987ء کو الطاف حسین نے اس شرط پر گرفتاری پیش کردی کہ مزید کارکنوں کو گرفتار نہ کیاجائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اکثر غریب کارکن ایسے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں تو ان کے گھروں کے چولہے روشن ہوتے ہیں۔ضیاء الحق نے اسی دوران1987ء کے لوکل باڈیز الیکشن کروادئیے جس میں عوام اتنی بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کو ووٹ دینے گھروں سے نکلے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ایم کیو ایم کی فقید المثال کامیابی کی دھاک بیٹھ گئی۔ بعد ازاں عوام نے اپنے مقبول رہنما کی رہائی کے لیے بے مثال تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء نے 7جنوری 1988ء کو الطاف حسین کو رہا کردیا۔ 21دسمبر 1991ء کو لندن سے واپسی پر کراچی ائیر پورٹ سے گھر آتے ہوئے مسلح دہشت گردوں نے عائشہ منزل، فیڈرل بی ایریا کے قریب ان کی گاڑی روکی اور ایک دہشت گرد نے کار میں ہینڈ گرنیڈ پھینکنے کی کوشش کی مگر معجزاتی طور پر وہ گرنیڈ اس کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا جس سے وہ خود ہلاک ہوگیا۔ جبکہ دوسرا دہشت گرد پولیس گارڈ کے فائر سے مارا گیا۔ اس طرح اس قاتلانہ حملے میں الطاف حسین محفوظ رہے 19جون 1992ء میں حکومت نے مسلح افواج کے ذریعے 72بڑی مچھلیوں کو ٹارگٹ کرنے کا بہانہ بنا کر آپریشن کلین اَپ کے نام سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں پر چڑھائی شروع کردی جس سے ایک ماہ قبل ہی اس سازش کی بو سونگھ کر الطاف حسین اپنے مخلص ساتھیوں کے پر زور اصرار پر برطانیہ چلے گئے تھے۔ اس آپریشن کے نام پر اردو اسپیکنگ قوم کے نہتے لوگوں اور ایم کیو ایم کے سرگرم کارکنوں کو چن چن کر شہید کیاجاتا رہا۔ خفیہ ایجنسیوں نے ایم کیو ایم کے کچھ باغیوں کو ہلہ شیری دے کر ایم کیوایم کے دفاتر پر قابض کروا دیا اور قتل و غارت گری کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس طرح اکتوبر 1993ء سے 1996ء کے دوران بڑے پیمانے پر ایم کیو ایم کے کارکن اور ہمدرد ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے۔ ہزاروں کارکن جلا وطنی اور دیگر شہروں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ 5 دسمبر 1995ء کو ایجنسیوں نے الطاف حسین کے 66سالہ برادر بزرگ ناصر حسین اور 28سالہ بھتیجے عارف حسین کو گرفتار کرکے 4دن قید میں رکھ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور 9 دسمبر1995ء کو انہیں شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں گڈاپ ٹاؤن میں پھینک دیں۔ اس ظلم و ستم پر دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں نے ایم کیو ایم کی حمایت اور حکومت کی مذمت کی۔ کئی ملکوں نے ایم کیو ایم کے مصیبت زدہ کارکنوں کے لیے سیاسی پناہ کے دروازے کھول دئیے جس کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی اپیل کی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون شکنی کرتے ہوئے ہزاروں مہاجر نوجوانوں کو گرفتار کرکے غائب کردیا جن کے اہل خاندان آج تک ان کی واپسی کی موہوم امیدوں کے سہارے زندہ ہیں۔ آرمی ایکشن کے دوران ایم کیو ایم کو غدارِ وطن کہا گیا اور نام نہاد جناح پور کے فرضی نقشے برآمد ہونے کا افسانہ بنا کر اخباروں میں شائع کرایا گیا مگر مہاجر عوام نے ان فضول باتوں پر یقین نہ کیا لیکن دیگر صوبوں کے عوام پر اس پراپیگنڈے کا کسی قدر اثر پڑا۔ بعد میں اس آپریشن کے ذمہ داران جنرل (ر) نصیر اختر اور بریگیڈئیر (ر) امتیاز نے کھلے بندوں اقرار کیا کہ جناح پور کا قصہ محض سٹنٹ تھا اور کوئی نقشے برآمد نہیں ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں 19اکتوبر1992ء کو آئی ایس پی آر نے جناح پور نامی کسی بھی پلان سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا کوئی ثبوت برآمدنہیں ہوا جس سے ملک کی تقسیم کی سازش کاپتہ چلتا ہو۔ یاد رہے کہ حکومت وقت نے ایم کیو ایم کے خلاف یہ آرمی ایکشن اس امرکے باوجود کیا کہ 1990ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری تھی۔ ظاہر ہے کہ اسٹیٹس کو کی طاقتوں کو یہ بات قطعی طور پر برداشت نہ تھی کہ عوام روایتی اشرافیہ کی بجائے غریب یا متوسط طبقے کے افراد کو اپنی نمائندگی کے لیے چنیں اور وہ نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اسمبلیوں میں آواز اٹھائیں۔ الطاف حسین نے پاکستان کے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے میں 98فیصد محکموں کو حقوق دلانے کی جوجدوجہد شروع کی ہے، اس کے باعث نہ صرف پاکستان کے جاگیرداروں ، بڑے زمینداروں ، سرمایہ داروں ، ملا اور پیر و فقیر و گدی نشینوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے ان کے خلاف سازشیں کیں بلکہ دنیا میں نظام سرمایہ داری کے محافظ بھی ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان نے ان کی ذات پر رکیک حملے کیے اور ان کے خلاف برطانیہ میں مقدمات کرنے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ان کے خلاف شواہد فراہم کرنے کے دعوے کیے۔ وہ برطانیہ جا کر الطاف حسین کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف بھی رہے مگر ناکام ہوئے۔ ان کے الزامات کے جواب میں ایم کیوایم نے قانونی راستہ اختیار کیا اور سندھ ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف 5کروڑ روپے ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا۔ اسی طرح ذوالفقار مرزا جو صدر زرداری کے دست راست، رازدار اور لڑکپن کے ساتھی ہیں، نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر الزامات لگانے میں سندھ کی اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑا دیں اورسر پر قرآن مجید رکھ کر انتہائی غیر اخلاقی الفاظ استعمال کیے۔ ان کا شور و غل کچھ دن چلا، پھر وہ بھی بڑے بڑے دعوے کرکے لندن کی اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی مدد کرنے گئے مگر پھر کچھ نہ پتہ چل سکا کہ کہاں چلے گئے۔ انہیں چپ کیوں لگ گئی۔ آج کل بھی چند سازشیں طشت ازبام ہو رہی ہیں جن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی لبرل ، ترقی پسند، روشن خیال، سیکولر (غیر فرقہ وارانہ) اور حق پرستانہ پالیسیوں سے الطاف حسین کی فکر و دانش کا پر تو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں حقیقت پسندی، عقلیت پسندی اور عملیت پسندی کے خوبصورت امتزاج کو رواج دیا۔ الطاف حسین کی فکر اور سیاست، معاشرے کے تمام طبقات کے لیے مساوی حقوق، بین المذاہب ہم آہنگی، عدم فرقہ واریت، بے تعصبی اور عدم تشدد کے گرد گھومتی ہے۔ الطاف حسین گزشتہ کئی سال سے کراچی میں طالبان کی آمد اور فروغ سے خبر دار کرتے رہے ہیں مگر کسی کے خصوصاً حکومت کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ آج ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے طالبان کا بھوت ہر کسی کو نظر آرہا ہے۔