Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

سانحہ سہراب گوٹھ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب ...تحریر : فیصل محمود

 Posted on: 10/31/2014   Views:2658
جب کراچی کے لوگوں نے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی تو ایوب خان نے مہاجروں کو سبق سکھانے کے لیئے اپنے بیٹے گوہر ایوب کو کراچی بھیجا۔چار جنوری 1965 کو گوہر ایوب صاحب نے کراچی میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کیا اور سرحد سے ہزاروں لوگوں کو ٹرکوں کے زریعے کراچی میں جمع کر لیا۔ ان لوگوں نے گوہر ایوب کی سربراہی میں فتح کا جشن منانے کے لیئے مختلف علاقوں میں جلوس نکالا۔ان لوگوں کا اصل مقصد مہاجر قوم کو سبق سکھانا تھا کیونکہ انہوں نے ایوب خان کی مخالفت کی تھی۔ان کو اس بات کی سزا دینی تھی۔چنانچہ ان غنڈوں نے سرکاری سرپرستی میں  گولی مار‘ لیاقت آباد اور ناظم آباد کی آبادیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ ان علاقوں کے لوگوں نے بار بار اپیل کی تھی کہ ان غنڈوں سے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ لیکن کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے انہوں نے جھگیوں کو آگ لگا دی اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو بھی پتھراؤ کر کے روک دیا گیا۔لوگ جان بچانے کے لئیے بھاگنے لگے تو بلوائیوں نے انہیں مارا۔ اس سانحہ میں درجنوں مہاجر شہید ہوئے۔گوہر ایوب نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس نے کراچی میں اپنے صوبے سے لوگوں کو لاکر یہاں ایسی آبادیاں بسائیں جن کا مقصد اس شہر کے لوگوں پر تشدد کرنا تھا۔یہ آبادیاں اس نے  شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بسائیں تاکہ انہیں مستقل بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہے۔آج ان آبادیوں میں منشیات،اسلحہ اور دیگر غیر قانونی کام عام ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی گھبراتے ہیں۔
سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ نیشنل ہائی وے پر قائد آباد اس وقت کی یادگاریں ہیں۔انہیں لوگوں نے اسمگلنگ کا سامان بیچنے کے اڈے یہاں قائم کر کے خوب دولت اکھٹا کی۔ انہیں لوگوں نے کراچی میں منشیات کے اڈے قائم کیے اور پاکستان کا سہراب گوٹھ میں قائم منشیات کا اڈا بین الاقوامی اسمگلروں کی توجہ کا مرکز بنا اور ساری دنیا میں ملک کی بد نامی کا باعث بنا ‘ وہی لوگ اسلحے کی تجارت میں ملوث رہے کراچی میں اسلحہ کی تجارت کو پروان چڑھایا۔سہراب گوٹھ کئی دھائیوں سے ام الفتن بنا ہوا ہے، غیر قانونی مہلک ہتھیاروں کے انبار ہیں، منشیات کا کھلا کاروبار ہوتا ہے، لینڈ مافیا کا اڈہ ہے، منی علاقہ غیر ہے۔ آٹھ اگست 1986ء کو کراچی کے نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے جلسہ عام نے پاکستان کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔اس جلسے کے بعد مہاجر دشمن قوتیں اور استحصالی عناصر ایم کیوایم کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے اور وہ مہاجروں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف پوگئے۔ کراچی کے بعد حیدرآباد کی عوام کی خواہش ہوئی کہ حیدرآباد میں بھی ایم کیو ایم کا جلسہ ہو۔چنانچہ31 اکتوبر 1986ء کو حیدرآباد کے پکا قلعہ میں جلسہ عام کا اعلان کیا گیا۔31 اکتوبر کو ایم کیو ایم کے قافلے کراچی سے حیدرآباد کے لیئے جوق درجوق روانہ ہونے لگے۔قافلے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے لیکن جیسے ہی یہ قافلے سہراب گوٹھ  پہنچے تو وہاں پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت موجود گھات لگائے ھوۓ ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے دہشت گردوں نے کلاشنکوفوں جدید ہتھیاروں سے  پرامن ایم کیو ایم کے کارکنان اور ہمدردوں پراندھا دھند فائرنگ کردی.دہشت گرد کھلے عام جدید ہتھیاروں سے بیگناہ انسانوں کا قتل عام  کرتےرہے. جس کے نتیجےمیں درجنوں کارکنان شہید اور زخمی ہوگئے.دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کے اور زخمیوں کے انبار لگ گۓ.ہر طرف چیخ اور پکار کی آوازیں تھیں.عوام دھاڑیں مار مار کررورہےتھے.آہ اور بکاہ  اور رونے کی صدائیں ماحول کو سوگوار کر گئیں.جس جگہ فائرنگ ہوئی  تھے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نام اور نشان نہیں تھا اوردہشت گرد بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے.حیدرآباد میں مارکیٹ چوک پر بھی  جلسے میں جانے والے قافلوں پر حملہ کیا گیا جس سے وہاں بھی متعدد افراد شہید اور زخمی ھوگئے۔ ایم کیو ایم کے قافلے پرفائرنگ کرنے والے کوئی انجان نہیں تھے۔ان سب کے نام تک اخبارات میں شائع ہوچکے تھے۔اور ان پر ایف آئی آر تک کٹی ہوئی تھی لیکن حملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں پکڑا گیا۔بلکہ اس کے بجائے الٹا الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کردیئے گئے۔حالانکہ الطاف حسین کو حیدرآباد میں جلسے کے دوران ہی سانحہ کی اطلاع مل چکی تھی لیکن آپ نے اس کا ذکر صرف اس وجہ سے نہیں کیا کہ اس سے فسادات پھیلتے اور واپسی پر آپ نے سب سے یہ کہا کہ سپر ہائی وے کے بجائے نیشنل ہائی وے کے راستے سے جائیں تاکہ تصادم نہ ہو۔لیکن اس کے باوجود آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور سانحہ کے قاتلوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا.اس سانحہ کو 28 سال ہوچکے ہیں مگر آج تک وہ قاتل آزاد ہیں۔ان کے خلاف کوئی کاروائی آج تک عمل میں نہیں لائی گئی۔بلکہ جب الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا گیا تو اس سانحہ میں ملوث لوگوں پر مقدمات بھی واپس لے لیئے گئے۔اسی بات سے اس سانحہ میں ملوث افراد ان جرائم پیشہ لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی سرکاری سرپرستی واضح ہوتی ہے۔قاتلوں کا یہ ٹولہ  منشیات فروشوں اور لینڈ مافیا پر مشتمل تھا جو آج تک  کراچی میں  قتل عام  کر رہے ہیں اور سہراب گوٹھ کا علاقہ آج بھی ڈرگ مافیا،اسلحہ مافیا اور لینڈ مافیا کی جنت بنا ہوا ہے اور ان پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ سانحہ سہراب گوٹھہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے.سانحہ سہراب گوٹھہ اور مارکیٹ چوک کا مقصد یہ تھا کہ سندھ میں اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان لسانی فسادات کرواۓ جائیں.مگر الطاف حسین نے ان سازشوں کو ناکام بنادیا اور پکا قلعہ میں ہونے والے جلسے میں اس سانحہ کا ذکر تک نہیں کیا اور اگر وہ اس سانحہ کا ذکر کردیتے تو اس سے عوام مشتعل ہوجاتی جس سے استحصالی قوتوں کی سازش کامیاب ہوجاتی۔مگرایم کیو ایم کی دور اندیش قیادت اور با شعور مہاجر اور پختون عوام نے اپنے اتحاد  سےاستحصالی قوتوں کی تمام سازشیں ناکام بنادیں۔ مہاجر قوم کی تاریخ اس طرح کے سانحات سے بھری ہوئی ہے.یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم کے پاس اسلحہ کے نام پر ایک پستول تک نہیں تھا۔لیکن افسوس اس کے باوجود الٹا مہاجروں اور ایم کیوایم کو مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم نے عوام کو کہا کہ ٹی وی اور وی سی آر بیچو اور اسلحہ خریدو لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرکاری سرپرستی میں دہشت گرد مہاجر آبادیوں میں گھس کر قتل عام کرتے تھے اور ہمیشہ ان موقعوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے گدھے کر سر سے سینگ کی طرح غائب رہے۔اگر ریاستی ادارے جو عوام کے تحفظ کےذمہ دار ہوں وہ عوام کو تحفظ دینے کے بجائے الٹا دہشت گردوں کو تحفظ دیں تو ٹی وی اور وی سی آر بیچ کر اسلحہ خریدنے والی بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔کاش کہ لوگوں تک مہاجر قوم کے قتل عام کی "تاریخ" صحیح طور پر پہنچی ہوتی۔ کاش کہ ہمارے قلم کاروں اور صحافیوں نے انصاف کیا ہوتا۔  سانحہ سہراب گوٹھ آج تک ہماری قوم کے لیئے ایک سوالیہ نشان ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا قومی میڈیا اس کا ذکر تک نہیں کرتا۔کیا کسی صحافی اور کسی تجزیہ نگار میں ہمت ہے کہ ملک کی مقتدر قوتوں سے آگے بڑھ کر پوچھے کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کو آج تک کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا۔کیا کسی میں اتنی ہمت ہے؟