قدیم ترین اسرائیل فلسطین تنازعہ
فریقین : اسرائیل اورفلسطین
تنازعے کے حل کے لئے دونوں فریقین کے رہنماؤں کی ملاقاتیں اورمعاہدے
گزشتہ روز 29ستمبر 2025ء کوامریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ اوراسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہوکے درمیان 20 نکاتی معاہدہ طے پایاجس میں فلسطین کاکوئی نمائندہ کیوں شریک نہ کیاگیا؟ جبکہ تنازعہ امریکہ اوراسرائیل کے مابین نہ تھا بلکہ اسرائیل اورفلسطین کے مابین تھا۔
قارئین کرام ! آپ کی خدمت میں چند تاریخی حقائق پیش کرناچاہوں گا جس سے ثابت ہوجائے گا کہ یہ مسئلہ دوفریقین کے درمیان تھاجس کے رہنماؤں کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔اس کی تصاویر اور وڈیوز منسلک ہیں۔
(1) 1991ء میں اسپین کے دارالخلافہ میڈرڈ میں ایک کثیرالجہتی سمٹ (Multilateral Summit) ہوئی جس میں امریکہ، روس، اسرائیل ،PLO یعنی (Palestinian Liberation Organisation) اورعرب ریاستوں کے نمائندگان نے شرکت کی ۔
(2) 1993ء میں اوسلو اکارڈ (Oslo Accord) ہوا جس میں دوریاستی حل کے فارمولے پربات چیت ہوئی ۔ اس Oslo Accord کے شرکاء میں امریکی صدر بل کلنٹن، اسرائیلی پرائم منسٹراتسحاق رابین، PLO کے چیئرمین یاسر عرفات اوردیگر شامل تھے۔
(3) 1995ء میں Oslo ll معاہدہ ہوا۔ یعنی
ٰIn 1995, Palestinian-Israeli Interim Agreement (Oslo ll) اس معاہدے پر PLO کے چیئرمین یاسر عرفات اوراسرائیلی وزیراعظم اتسحاق رابن نے دستخط کئے ۔
(4) 13جنوری 1997ء کو اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو اور PLO کے چیئرمین یاسر عرفات کے درمیان US ایلچی ڈینس روز (Dennis Ross) کی موجودگی میں ملاقات ہوئی۔
(5) 23 اکتوبر 1998ء کوWye River Memorandum نامی ایک معاہدہ وہائٹ ہاؤس USA میں ہوا۔ اس معاہدے میں بھی اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو اور PLO کے چیئرمین یاسر عرفات نے امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں دستخط کئے جس میں طے پایا تھا کہ اسرائیل ، فلسطین کے مزید علاقوں پر سے قبضے ختم کردے گا۔
(6) 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ سمٹ (Camp David Summit) میں امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں طے پایاکہ 95 فیصد ویسٹ بینک کاعلاقہ اورپورے کا پورا غزہ (Gaza) فلسطین کوملے گا اوریروشلم Shared ہوگا۔ کیمپ ڈیوڈ سمٹ میں اسرائیلی وزیراعظم ایہود بارک اور فلسطین کے صدر یاسر عرفات اورامریکی صدر بل کلنٹن موجود تھے۔
اس طرح ملاقاتوں، معاہدات کایہ سلسلہ 2001ئ، 2007ء اور2013-2014 ء تک جاری رہا۔ مگر29 ستمبر 2025ء کو صرف امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اوراسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کے درمیان 20 نکاتی معاہدہ ہوا جس میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر محمودعباس دستیاب تھے، انہیں کیوں مدعونہیں کیاگیا؟ کیا یہ قدیم ترین تنازعہ اسرائیل اورفلسطین کے مابین نہ تھا؟ اورکیایہ تنازعہ امریکہ اوراسرائیل کے درمیان تھا؟ آخر اس معاہدے کے وقت فلسطینی نمائندگی کیوں نہ تھی؟
میں قارئین کرام خصوصاً تاریخ اورفلسفے کے اساتذہ کرام سے درخواست کرتاہوں کہ وہ مہربانی کرکے میرے ان خیالات اورذہنی الجھن کے بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ میں ان کابہت بہت مشکور ہوگا۔
شکریہ
الطاف حسین
30ستمبر 2025ئ
لندن