Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

’’یادوں کی گھنی چھاؤں‘‘ (تحریر:شعور حسین)

 Posted on: 9/17/2013   Views:2334
قائد تحریک جناب الطاف حسین کے ساٹھویں یوم پیدائش کے موقعے پر خصوصی تحریر۔

’’یادوں کی گھنی چھاؤں‘‘

تحریر:شعور حسین

مسلمانانِ برصغیر کی طویل اور صبر آزما جدوجہد بالآخر 14اگست 1947ء کو کامیاب ہوئی ۔ لاکھوں شہیدوں کا خون رنگ لایا اور دنیا کے نقشے پر پہلی نظریاتی مملکت نے اپنی جگہ بنائی۔ اس کامیابی کے بعد مسلم اقلیتی علاقوں سے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور مسلمانانِ ہند جوق در جوق اپنے وطن پاکستان آنا شروع ہوئے۔ انہی میں سے ایک گھرانے نے نذیر حسین کی قیادت میں ہندوستان کے صوبے اُتر پردیش کے علاقے آگرہ سے ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ نذیر حسین کے والد مفتی رمضان آگرہ کے مفتی رہے ، جبکہ ان کی زوجہ محترمہ خورشید بیگم کے والد حافظ رحیم بخش بھی آگرہ کے دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک با عزت اور دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والا خاندان تھا۔ نذیر حسین ہندوستان میں اسٹیشن ماسٹر تھے جبکہ پاکستان آنے کے بعد جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونے کے باعث تمام تر تکالیف برداشت کرتے ہوئے اپنے گھرانے کی کفالت کرنے کے لیے مل میں نوکری کی۔ 17ستمبر 1953ء کو ان کے گھر میں بیٹے کی ولادت ہوئی ۔جس نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1979ء میں ویل جی بھائی اللہ رکھا اسکول، جیل روڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1974ء میں اسلامیہ کالج سے B.Sc. کی سند حاصل کی اور 1979ء میں مادرِ علمی جامعہ کراچی سے بی فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایم فارمیسی میں داخلہ لیا۔ اس نو عمر طالب علم کا نام الطاف حسین تھا۔ اس کی سوچ سن شعور سے ہی اس طرف مائل تھی کہ یہ ملک مسلمانانِ برصغیر کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ یہاں نسل اور لسان کی بنیاد پر تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ بالخصوص وہ مسلمان جو مسلم اقلیتی علاقوں سے ہجرت کرکے اپنے وطن آئے تھے، انہیں یہاں پاکستانی کہنے کے بجائے مہاجر سمیت نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جارہا تھا۔

جب اس نے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو جا بجا لسانی اور نسلی بنیادوں پر قائم طلبہ تنظیم کے بینر دیکھ کر اس کے ذہن میں اپنے تشخص اور پہچان کے حوالے سے سوال اٹھنے لگے ۔اس کے بعد ان کے ذہن میں ایک سوچ نے جنم لیا کہ آخر میں کون ہوں۔ اس سوچ کی بنیاد پر اپنے ہم خیال طلباء و طالبات کو جمع کرنا شروع کیا۔ 11جون 1978ء کو صرف پچیس سال کی عمر میں الطاف حسین نے طلباتنظیم کی بنیاد ڈالی جسے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے موسوم کیا گیا۔ گو کہ اس سے قبل کئی تنظیمیں لسان اور نسل کی بنیاد پر قائم تھیں لیکن جس دن سے یہ تنظیم قائم ہوئی، اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اس کا راستہ روکا جانے لگا۔ ایک نام نہاد مذہبی طلباء تنظیم کے دہشت گردوں نے جامعہ کراچی میں اس کارواں کے افراد پر عرصہ حیات تنگ کیا اور بالآخر 1979ء میں الطاف حسین نے اپنی تعلیم نامکمل چھوڑ کر جامعہ کراچی سے شہر کا رخ کیا۔ اس سفر میں بڑی تکالیف آئیں۔ 13مارچ 1967ء کو ان کے والد محترم نذیر حسین نے دنیا سے رحلت کی۔ جناب الطاف حسین ٹیوشن پڑھاتے اور انتہائی عسرت میں اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ اس جدوجہد کی داغ بیل بھی ڈال رہے تھے جسے ببانگ دہل حق پرستی کی جدوجہد کہا جاسکتا ہے اور اس سفر میں ان کی والدہ محترمہ ، محترمہ خورشید بیگم نے ان کی بھرپور مدد اور رہنمائی کی۔ 

طلبا ء پر مشتمل اس قافلے نے جامعہ کراچی سے باہر آکر عوام میں رائے عامہ ہموار کی۔ گلی گلی ، کوچے کوچے،پیدل موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں میں سفر کیے۔ بسوں پر لٹک کر میٹنگز کے لیے کوچہ کوچہ قریہ قریہ گئے اور اس کے بعد بالآخر وہ صبح بھی نمودار ہوئی کہ اس طلباء تنظیم نے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت کو جنم دیا اور 18مارچ 1984ء کو مہاجر قومی موومنٹ معرضِ وجود میں آئی۔ کارکنان کی تربیت ، عوامی رائے عامہ کی بحالی کا سفر جاری رہا۔ ملک میں مارشل لاء ختم ہوا اور جمہوریت بحال ہوئی تو اس جماعت نے پہلی مرتبہ نومبر 1987ء میں بلدیاتی انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ 11جون 1978ء کو شروع ہونے والی اس جدوجہد کا یہ پہلا بڑا سنگ میل تھا جسے الطاف حسین کی قیادت میں حق پرست کارواں نے عبور کیا۔ اس سفر میں الطاف حسین تین مرتبہ پابند سلاسل کیے گئے۔ پہلی مرتبہ 14اگست1979ء کو گرفتار ہوئے تو 12اکتوبر1979ء کو رِہا ہوئے۔ دوسری مرتبہ 31اکتوبر1986ء کو حیدر�آباد کے تاریخی و کامیاب جلسے سے واپسی پر گرفتار کیے گئے ۔ آخری مرتبہ 30اگست1987ء کو رضاکارانہ طور پر گرفتاری پیش کی ، کیونکہ ایم کیو ایم کے کارکنان ،عوام اور ہمدردوں کے گھروں پر دن رات چھاپے مارے جا رہے تھے اور جب تک ایک ایک کارکنان اور عوام رِہا نہ ہو گئے، انہوں نے اپنی رہائی کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ چنانچہ پابند سلاسل افراد کی رِہائی کے بعد جنوری 1988ء میں قائد تحریک الطاف حسین جیل سے رِہا ہوئے۔ اس کے بعد حق پرست قیادت نے انسانی خدمت کے ایسے مینار تعمیر کیے اور شب و روز محنت سے کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں کا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اور یہ تمام کارہائے نمایاں ان نوجوانوں نے سرانجام دئیے جو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور یہی وہ قصور تھا جس کی بنیاد پر پاکستان کے اقتدار پر قابض مافیا نے اس تحریک کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کیے ۔ کارکنان کا قتل، مہاجر بستیوں پر حملے معمول بنتے چلے گئے، لیکن کارواں انتہائی استقامت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا اور 1988ء کے عام انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے اکثریتی مینڈیٹ حاصل کیا اور کامیابی کا یہ سلسلہ 1990ء میں بھی برقرار رہا۔ استحصالی طبقے کو کامیابی کا یہ سفر اورغریبوں کی حکمرانی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس طبقے نے ریاست کے اداروں کو استعمال کرکے 19جون 1992ء کو اس تحریک پر شب خون مارا۔ قیادت زیر زمین چلی گئی ۔ کارکنان کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ قائد تحریک اس آپریشن سے کچھ عرصہ قبل ہی علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے اس آپریشن کے خلاف بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا۔ لندن میں ان کا عارضی قیام جلا وطنی میں تبدیل ہوا ۔ ایم کیو ایم کے دفاتر زبردستی قبضہ کرائے گئے اور پاکستان کی تاریخ کا انتہائی تکلیف دہ دور شروع ہوا۔ اس دور میں 15,000سے زائد کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے دئیے۔ ہزاروں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے۔ سینکڑوں نے جلا وطنی اختیار کی اور اس پر آشوب دورمیں پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ جب 9دسمبر 1995ء کو قائد تحریک الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور ان کے جواں سال بھتیجے عارف حسین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اغوا کیا اور بعد ازاں بہیمانہ تشدد کے بعد انہیں قتل کرکے کراچی کے مضافاتی علاقے گڈاپ میں ان کی لاشیں پھینک دیں۔ 

ظلم کی انتہا یہ تھی کہ ان کے جواں سال بھتیجے کے سر کے ٹکڑے کر دئیے گئے تھے اور یوں قائد تحریک نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی اور یہ وہی تحریک ہے جس میں مائیں اپنے پیاروں کے انتظارمیں آنکھیں پتھرائے بیٹھی ہیں۔ وہ بزرگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے سپوتوں کو زمین کی آغوش میں سلا دیا اور تحریک سے جڑے رہے۔ وہ بہنیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے آنچل کے محافظ اس تحریک کو دے دئیے او روہ بیٹیاں بھی ہیں جنہوں نے اپنے سہاگ اس تحریک کی نذر کیے۔ یہ انہی کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت میں یہ کارواں آج بھی آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ اس میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ جب قائد تحریک جناب الطاف حسین نے اپنے فلسفہ سیاست کو پورے پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کیا اور 26جولائی 1997ء کو مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ قائد تحریک کے فلسفہ حقیقت پسندی پر عمل کرتے ہوئے 98فیصد حقوق سے محروم عوام کے حقوق حاصل کیے جائیں گے لیکن ابھی اور بھی امتحان باقی تھے اور آگ کے دریا عبور کرنے تھے۔ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوئی۔ نئے ہزارئیے سے روشناس ہوئی لیکن اس تحریک پر ظلم اور تشدد کی تاریک رات ختم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اس سیاسی جماعت کا راستہ صرف اس لیے روکا جارہا ہے کہ اس نے اس سوچ کو پروان چڑھایا ہے جس کے خالق جناب الطاف حسین ہیں اور وہ یہ ہے کہ مسائل وہی حل کرسکتا ہے جس کے گھر کا چولہا بجھا ہو۔ جس نے بسوں کا سفر کیا ہو۔ جس کو بے بسی میں علاج معالجہ دستیاب نہ ہوا ہو اور اس کے پیارے دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ الطاف حسین نے نہ تو ملکی طالع آزماؤں کے آگے سر جھکایا ہے اور نہ ہی وہ عالمی ظالموں کے سامنے سر جھکانے کو تیار ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت دست بدست 2004ء میں امریکا کے مقام ہیوسٹن میں ایم کیو ایم کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں انصاف کا نظام کہیں موجود نہیں ہے۔ امریکا میں نسل کی بنیاد پر تفریق موجود ہے جبکہ برطانیہ میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد تحریک کے فلسفے سے دنیا خائف ہے۔ پاکستا ن کا وہ طبقہ جو اقتدار میں اس لیے آتا تھا کہ اپنی ریاستیں ، اپنی جاگیریں برقرار رکھے۔ ترقی کے راستے کو روک کر غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند نہ ہونے دے۔ الطاف حسین کی جدوجہد ان تمام لوگوں کے راستے میں حائل ہے اور وہ ان کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج سے قبل پاکستان میں انتخابات کے دوران فیصلہ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی طاقت کی بنیاد پر ہوتا تھا لیکن آج فیصلے کی بنیاد کارکردگی ہے اور یہی قائد تحریک الطاف حسین کی سیاسی جدوجہد کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا راستہ مستقل روکا جارہا ہے لیکن حق کے راستے کو نہ روکا جاسکا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے۔ 

قربانیوں کی ایک ایسی تاریخ اس تحریک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس کی مثال تاریخ میں کم کم دستیاب ہے۔ سیاسی استقامت کے وہ مینار نظر آتے ہیں جو کسی اور تحریک میں نہیں ہیں۔ قائد تحریک الطاف حسین گزشتہ 25سالوں سے جلا وطن رہنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی یہ دوری کبھی بھی محسوس نہیں کی گئی۔ وہ اپنے کارکنان اور عوام کے درمیان ہمیشہ رہے۔ ہر سطح پر اپنے کارکنان کی تربیت کی۔ اپنے عوام کے مسائل پر آواز بلند کی۔ یہ وہ مختصر تاریخ ہے جو قائد تحریک الطاف حسین کی زندگی کا ایک طائرانہ جائزہ بھی کہی جاسکتی ہے اوراس کی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دستیاب نہیں کیونکہ کامیابی کا یہ سفر نومبر 1987ء میں شروع ہوا اور 2013ء تک الحمدللہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں نئی راہوں کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ یادوں کی یہ گھنی چھاؤں قائد تحریک الطاف حسین کی جدوجہد کا ثمر اور کارکنان کا اثاثہ ہے۔ کارکن اور قائد کے اس رشتے کو کوئی طاقت نہ توڑ سکی ہے اور نہ توڑ سکے گی۔ 17ستمبر کارکنانِ الطاف حسین کے لیے تجدید عہد کا دن ہے اور وہ اس دن کو اسی سوچ کے ساتھ منائیں گے۔