Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

سالگرہ مبارک ہو(تحریر : عمران نور )

 Posted on: 9/17/2013   Views:2488
قائد تحریک جناب الطا ف حسین کی 60ویں سالگرہ کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون

سالگرہ مبارک ہو

تحریر : عمران نور 

ایک سچے پاکستانی مورخ کے مطابق پس ماندہ معاشر ے میں تخلیقی ذہن اور بااثر شخصیتیں کم پیدا ہوتی ہیں ۔اس تناظر میں پس ماندہ پاکستانی معاشرے اور اس میں ہونے والی سیاست کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں 2 فیصد امیر طبقے نے 98 فیصد غریب عوام کو جبری پس ماندہ بنا رکھا ہے ۔ پاکستانی سیاست کے دشت میں غریب عوام کو حقوق دلانے کے دعویدار کئی راہنما آئے اور اب بھی موجودہیں لیکن ان میں سے عملاً کوئی بھی زیادہ کامیاب نہ ہوسکا اس کی ایک اہم وجہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہونا ہے یہ سیاستدان عوام کے حقوق کی باتیں تو مسلسل کرتے چلے آرہے ہیں لیکن پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں غریب عوام کو عملاً اپنے برابر بٹھانے کے روادار کبھی نہ رہے انہوں نے سیاست میں ہمیشہ موروثیت کو مضبوط کیا جو بے شمار خرابیوں کا باعث ہے ۔یاد رہے (موروثیت سے اسلام نے بھی سختی سے منع فر مایا ہے)۔ 17 ستمبر 1953 ء کو پس ماندہ پاکستانی معاشرے میں جنم لینے والے الطاف حسین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ پس ماندہ پاکستانی معاشرے اور اس کی سیاسی تاریخ کا رخ موڑ کر ان میں عملاً وہ تبدیلی لائے جو پاکستان اور اس کے 98 فیصد غریب عوام کی بقا ، سلامتی ، تعمیر و ترقی اور مضبوطی کی ضامن بن چکی ہے۔ الطاف حسین نے کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا۔ آپ کے والدین حق پرست تھے بقول الطاف حسین حق پرستی کی راہ پر چلنے کی تربیت آپ کی والدہ محترمہ (مرحومہ ) خورشید بیگم اور والد محترم (مرحوم ) نذیر حسین نے کی۔ کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں سے ابتدائی تا اعلی تعلیم حاصل کی تعلیم کا سفر جاری رکھنے کے لئے آپ نے ٹیوشنز پڑھائیں ، عید کارڈ ز، بنیان ، موزے وغیرہ کے اسٹالز لگا ئے ۔دورانِ طالب علمی 1970-71 ء میں پہلے( نیشنل سروس کیڈٹ اسکیم ) ازاں بعد 57 بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوئے اور ایک سال کی فوجی تربیت سندھ و بلوچستان میں حاصل کی ۔آپ بچپن ہی سے حساس طبعیت کے مالک ہیں جس کا اندازہ آپ کی ابتدائی انقلابی جدوجہد کی معلومات پر مبنی کتاب ’’ سفرِ زندگی‘‘ سے ہوتا ہے جس کے مطابق جب آپ چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیرِ تعلیم اور جہانگیر روڈ کے کوارٹرز میں رہا ئش پذیر تھے اور ایک روز اپنے بنگالی دوست کے گھر میں اُس کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ نے وہاں سنا کہ اُس کے گھر والے اور عزیز و اقارب اپنا الگ دیش بنانے کی باتیں کر رہے ہیں تو آپ کی حساس طبعیت نے آپ کو سوچنے پر مجبور کردیا اور آپ نے اُن لوگوں سے سوال پوچھا کہ آخر آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں ؟۔آپ نے اپنے دوست سے کہا کہ اپنے گھر والوں کو سمجھاؤ وہ ایسانہ کریں۔ نوجوانی ہی سے ا نسانیت کی بلاامتیاز ،بے لوث خدمت کا جذبہ آپ کی رگوں میں ہر دم لہو کی مانند دوڑتا ہے آپ نے اپنی نوجوانی کے انمول لمحا ت اور آج تک کی ذاتی زندگی کو پاکستان اوراس کے 98 فیصد غریب عوام کو پس ماندگی سے نکال کر ترقی یافتہ بنانے کے لئے قربان کر دی اس عظیم مقصد کے لئے 24 برس کی عمر میں آپ نے جامعہ کراچی میں 11،جون ،1978 ء کو( آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ) کی بنیاد رکھی اور تاریخ میں نظریہ (حقیقت و عملیت پسندی )کے خالق بنے ، 25 سال کی عمر میں خدمتِ خلق کمیٹی بنائی جو 20 ، دسمبر ، 1997 ء کو خدمتِ خلق فاؤنڈیشن میں تبدیل ہوگئی جس کی بلاتفریق، بے لوث خدمتِ خلق کا ایک زمانہ معترف ہے،30 سال کی عمر میں آپ نے مذکورہ طلبہ تنظیم سے 18 ،مارچ، 1984 ء کو98 فیصد غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعت( مہاجرقومی موومنٹ ) قائم کی جو26،جولائی، 1997 ء کو(متحدہ قومی موومنٹ )میں تبدیل ہوگئی ۔روزِ اول سے آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف خطرناک ترین پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔مظلوموں کو اُن کے حقوق دلانے کی انقلا بی جدوجہد میں آپ 3 مرتبہ پابندِ سلاسل بھی رہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے آپ کی شخصیت کو تاریخ ساز بنا یا اور پاکستان کی پس ماندہ سیاسی و معاشرتی تاریخ کا رخ بھی تبدیل کیا وہ 98 فیصد غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ عوام کو عوامی حمایت سے اقتدار کے ملکی ایوانوں میں 2 فیصد امیر طبقے کے برابر لابٹھانا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں ملک توڑنے والی موروثی سیاست پر ضربِ کاری لگی اور ملک و قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئے۔ جہاں آپ کا یہ عمل ملک و قوم سمیت دنیا بھر میں لائقِ تحسین ٹہرا وہیں 2 فیصد امیر طبقے کی نظر میں ناقابلِ معافی جرم اور اس کی پاداش میں آپ کی جماعت ایم کیو ایم پر 19 ، جون ، 1992 ء کو ریاستی آپریشن مسلط کیا گیا ۔کیونکہ آپ کی نیت سچی اور قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے اسی لئے مذکورہ آپریشن اورشروع سے مخالفین کی جانب سے تواتر کے ساتھ خطرناک پروپیگنڈے کے باوجود آپ کی جماعت بلدیاتی اور عام انتخابات میں عوامی حمایت سے ملک بھر میں پھیل کر مضبوط ہوتی جا رہی ہے جس کی روشن مثالیں 1987ء اور 2005 ء کے بلدیاتی انتخابات،1988 ء ، 1990ء ، 1993ء ،1996ء، 2002ء ، 2008ء ، 2013ء کے عام انتخابات اور2006 ء ، 2011 ء میں کشمیر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے اُمیدواروں کی عوامی حمایت سے بھر پور کامیابیاں ہیں ۔ 11 ،مئی ، 2013 ء کے عام انتخابات میں مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنے رہنے کے باوجود بھی ایم کیو ایم کے اُمیدواروں نے عوامی حمایت سے بھاری اکثریت سے کامیابیاں حاصل کیں اور مجموعی طور پر ایم کیو ایم کو ملک بھر سے 25 لاکھ ووٹ ملے ۔یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان سمیت بین الاقوامی استحصالی قوتیں جن کے اس خطے میں ذاتی مفادات ہیں اپنے مفادات کو خطر ے میں دیکھ کر آپ کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں اورآپ پر جھوٹے الزامات لگا کر آپ کو بدنام کرنے کے ساتھ اس مرتبہ دیارِ غیر میں پابندِ سلاسل کرنے کی سازشیں بھی بُنی جارہی ہیں ان سازشوں میں بین الاقوامی طاغوتی قو تیں ،ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارہ، پاکستانی میڈیا کے چندچینلز کے کچھ اینکر پرسنز ،دانشور و دیگر بھی شامل ہیں جو2 فیصد امیر طبقے کی ستائی 98 فیصد غریب پاکستانی عوام کوآپ اور آپ کی جماعت سے متنفر کرنے کی بھر پور کاوشیں کر رہے ہیں ۔چڑیا کے محتاج ایک دانشور نے تویہاں تک کہا کہ اگر صاف شفاف الیکشن ہو جائیں تو ایم کیو ایم کا مینڈیٹ کراچی میںآدھا رہ جائے گالیکن 22 اگست 2013 ء کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات جو افواجِ پاکستان کی زیرِ نگرانی ہوئے میں ایم کیو ایم کے اُمیدواروں نے عوامی حمایت سے جس بھاری اکثریت سے کراچی اور میرپور خاص سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں نے چڑیا کے محتاج دانشور سمیت دیگر ایم کیو ایم مخالفین کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کر کے یہ حقیقت آشکار کر دی کہ عوام آج بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے اور ایم کیو ایم کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیںیہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سب سے بڑی جیت ہے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے آج تک اس میں موروثیت نام کی کوئی شے نہیں پائی گئی ہے ۔ آج پاکستان میں استحصالی قوتوں کے خلاف چہار جانب باتیں ہورہی ہیں اس کی وجہ بھی الطاف حسین کی انقلابی شخصیت ہے۔ الطاف حسین اعلی ٹیچر ، لیڈر، دانشور، کالم نگار ، تجزیہ کار، سیاستداں ، محقق ، مفکر ، منتظم ، مقرر اور مصنف بھی ہیں۔ آپ کے کالموں پر مبنی کتاب (پاکستان کی آزادی کے پچاس برس ۔۔کیا کھویا کیا پایا) سچی تا ریخی کتاب ہے جو خصوصاً نوجوان طلبا و طالبات کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ آپ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ، اُن کا تجزیہ کرتے اور ملک و قوم کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے بر وقت آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج 17 ستمبر 2013 ء کو الطاف حسین اپنی عمر کی 60 بہاریں دیکھ چکے ہیں ایسی مخلص ، مقناطیسی شخصیت الطاف حسین کواُن کی کامیابیوں، قربانیوں اور جدوجہد سے بھر پور زندگی کے 60 سال مکمل ہونے پر راقم کی جانب سے دل کی گہرائیوں اور نیک خواہشات کے ساتھ سالگرہ مبارک ہو۔ 

’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے 

منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے‘‘۔