Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

1973ء کاآئین مکمل طورپر مسخ کیاجاچکاہے،کیااب اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں نیاآئین تشکیل دیاجائے؟


1973ء کاآئین مکمل طورپر مسخ کیاجاچکاہے،کیااب اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں نیاآئین تشکیل دیاجائے؟
 Posted on: 12/2/2025


1973ء کاآئین مکمل طورپر مسخ کیاجاچکاہے،کیااب اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں نیاآئین تشکیل دیاجائے؟   کیااب پاکستان کی وکلاء برادری کواصل آئین کی بحالی اور نئے آئین کی تشکیل کی تحریک نہیں چلانی چاہیے؟ کیا اب سپریم کورٹ کے ججز کسی حکومتی رکن کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں؟ انصاف کیسے ملے گا؟ آئینی ماہرین سے اہم سوالات ………………………………………………………… 1973ء کاآئین، پاکستان کا”متفقہ آئین“ہے جس پراُس وقت کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے دستخط کیے تھے تو وہ آئین ”متفقہ آئین“ قرارپایا۔کیایہ اصولی بات نہیں کہ جن اکابرین نے 1973ء کے آئین پر دستخط کیے تھے اگر وہ حیات ہیں تو انہیں طلب کیاجائے اور انتقال کرگئے ہیں تو ان جماعتوں کے سینئرلیڈروں کو بلاکر ان کے سامنے 1973ء کا آئین اور آج کا آئین رکھ کر اس بات کاجائز ہ لیاجائے کہ آئین پاکستان میں جو ترامیم کی گئی ہیں انہوں نے 1973ء کے آئین سے اس کی روح ہی نکال دی گئی ہے۔  موجودہ حکومت کے دور میں جس انداز اور تیزرفتاری سے 26 ویں آئینی ترمیم کرکے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ پراس طرح حملہ کیاگیا کہ سپریم کورٹ کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیاگیااورسپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کے تقرری کا عمل الٹ دیاگیا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کاتقرر آئین کے وضع کردہ اصول اورسنیارٹی کی بنیاد پر کیاجاتا تھا مگر26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سینیارٹی کے اس اصول کوختم کردیاگیااورچیف جسٹس کی تقرری کااختیارحکومت کودیدیاگیا۔سینارٹی کی بنیاد پر جسٹس منصورعلی شاہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج تھے،انہیں سپریم کورٹ کاچیف جسٹس ہوناچاہیے تھا لیکن ان کے بجائے ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا گیا۔ شریف النفس جسٹس منصورعلی شاہ خون کے گھونٹ پی کرایک جونیئر جج کے ماتحت کام کرتے رہے لیکن 27ویں آئینی ترمیم کے بعدسپریم کورٹ کے ججوں کواس طرح بالکل مفلوج کردیاگیاکہ عدلیہ کو وزیراعظم اورصدرپاکستان کے ماتحت کردی گئی کہ وہ جسے چاہیں سپریم کورٹ کاچیف جسٹس بنادیں اور سپریم کورٹ کے ججوں میں سے جو بھی حکومت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرے اس کا دوردراز کے علاقوں میں تبادلہ کردیاجائے۔  سپریم کورٹ پاکستان کا اہم ادارہ ہے جوآئین کے تحت صدراوروزیراعظم کا بھی احتساب کرسکتا تھا لیکن 27ویں آئینی ترمیم کے بعدحکمرانوں کواحتساب سے مستثنیٰ قراردیدیاگیاہے جوانصاف کے تقاضوں کے سراسرمنافی ہے۔ اس تناظر میں آئینی ماہرین سے میرا سوال ہے کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کے اراکین نے1973ء کے جس آئین کے تحفظ اوراحترام کاحلف اٹھایا تھا اب جبکہ حالیہ ترامیم کے بعد 1973ء کے ”متفقہ آئین“کی روح ہی نکال دی گئی ہے تواُن ارکان پارلیمنٹ کا وہ حلف اب بھی برقرارہے یا ٹوٹ چکا ہے؟ جب آئین کی پوری شکل ہی تبدیل کردی گئی ہے توکیا اب یہ لازم نہیں ہوگیا کہ ان ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والے تمام ارکان پارلیمنٹ کو 27ویں آئینی ترمیم کے بعد نیا حلف لینا چاہیے؟  آئین کی روح نکال کراُسے آمرانہ اورجابرانہ آئین بنادیاگیا ہے جس سے سپریم کورٹ کی آزادحیثیت پرہی اثر نہیں پڑا بلکہ عدالتی سسٹم کا ہی بیڑہ غرق کردیاگیا اورمیرٹ کا اس طرح قتل کردیا گیاکہ اب کوئی وزیراعظم کی مرضی کے بغیر جج نہیں بن سکتا، 27 ویں آئینی ترمیم کرکے سپریم کورٹ جیسے آئینی ادارے کے بنیادی ڈھانچے کو ہی یکسر اُڑادیاگیاہے اورملک میں 78 برسوں سے جو قوانین چلے آرہے تھے انہیں یکسر تبدیل کرکے وزیراعظم کو یہ اختیاردے دیا گیاہے کہ وہ ججوں کا تعین کرے، کوئی سپریم کورٹ کے رولز آف بزنس کے تحت میرٹ پر جج بنے گا یا پھر اس کی تقرری وزیراعظم اورصدرمملکت کے دستخط لازمی ہوں گے۔ جن لوگوں نے اپنے آئین کوکاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کردیا وہ اگر اس کو آئین قراردیکر چلانا چاہتے ہیں تو کیاانہیں نیا حلف لینا ہوگا یانہیں؟  سپریم کورٹ کے دوجج صاحبان جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہرمن اللہ اور ہائی کورٹ کے دوججوں نے اپنے استعفے پیش کرکے ثابت کردیا کہ انصاف کی سب سے بڑی عدالت کے طریقہ کارکویکسرتبدیل کرکے آئین کی روح کوختم کردیاگیاہے۔ میراآئینی ماہرین سے سوال ہے کہ اب سپریم کورٹ میں حکومت کے من پسند جو ججز مقررکیے جارہے ہیں کیا وہ اس ترمیم شدہ آئین کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کریں گے؟ اگرآئینی ترمیم پر دستخط کرنے والاحکومت کا کوئی رکن یااس کا رشتہ دار کسی شہری کے پلاٹ پر قبضہ کرلے، متاثرہ فریادی اپنا مقدمہ سپریم کورٹ لیکر جائے تو اس کی فریاد سول یا کریمنل مقدمات سننے والی عدالت سنے گی یا آئینی معاملات دیکھنے والی عدالت سنے گی؟  سپریم کورٹ کی دونوں عدالتوں کے جن ججوں کو پسند ناپسند کی بنیاد پر مقررکیاگیا ہے اگر وہ اس مقدمے کی سماعت کریں گے توکیاججز فریادی کے وکیل کے دلائل سنیں گے؟ اور کیاوہ وکلاء کے مضبوط دلائل کے باوجود شہری کے پلاٹ پر قبضہ کرنے والے کسی حکومتی رکن کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں؟ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ انسانی حقوق کی کارکن محترمہ ایمان مزاری اوران کے شوہر ہادی علی ایڈوکیٹ کو عدالتی ضابطوں کے برخلاف کمرہ عدالت سے باہرکرکے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔اسی طرح اس سے قبل اسلام آبادہائی کورٹ کے ججوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی لیکن آئینی ترامیم کے بعد بننے والی  آئینی عدالت نے ان ججوں کی پٹیشن ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔اس صورتحال میں جب ججوں اوروکیلوں کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا تو عام شہریوں کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟  اب وکلاء سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ لیکر جائیں گے تو کیاانہیں امید ہے کہ سپریم کورٹ انہیں انصاف فراہم کرے گی؟ جب 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک کے سینئر ترین وکلاء کے دلائل کو سپریم کورٹ نے یکسرمسترد کرکے پھینک دیا تو اب وکلاء برادری کی روزی روٹی کیسے چلے گی؟  اس تمام ترصورتحال کی روشنی میں جبکہ 1973ء کاآئین مکمل طورپر مسخ کیاجاچکاہے توکیااب اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں نیاآئین تشکیل دیاجائے؟  موجودہ آئین ایک مسخ شدہ آئین ہے لہٰذا کیااب پاکستان کی وکلاء برادری کواصل آئین کی بحالی اور نئے آئین کی تشکیل کی تحریک نہیں چلانی چاہیے؟ الطاف حسین ٹک ٹاک پر 355ویں فکری نشست سے خطاب 30نومبر 2025ء

12/1/2025 3:28:52 PM