جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹرریاض احمد کی گرفتاری کاواقعہ ریاست کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔ الطاف حسین
اہل پنجاب کویہ سوچ بدلنی ہوگی کہ صرف پنجا بی کاقتل ہی قابل مذمت ہے
اگراہل پنجاب دوسری قوموں پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہیں گے تو پاکستان کی یکجہتی اورسلامتی برقرار نہیں رہے گی۔
میں پاکستان کوبچانا چاہتا ہوں اوراس کے لئے اہل پنجاب کوآگے آناہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31اگست 2024ء کوکراچی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کااجلاس تھا جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری پر اٹھائے گئے سوال کے بارے میں تھی۔جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان چھ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مارچ 2024ء میں سپریم جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کومشترکہ طورپرخط لکھاتھاکہ آئی ایس آئی کی جانب سے انہیں آئی ایس آئی کی مرضی کے فیصلے کرانے کے لئے دباؤ ڈالا جارہاہے، ان پر دباؤڈال کران کے رشتہ داروں کو ہراساں کیاجارہاہے، انہیں بلیک میل کرنے کے لئے ان کے گھروں حتیٰ کہ بیڈرومز میں بھی خفیہ کیمرے لگائے گئے ہیں ،ان کی پرائیویسی کوشدیدخطرہ لاحق ہے ان کاجیناحرام کردیا گیاہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان ججوں کوبھی ابھی تک انصاف نہیں مل سکا۔ بلکہ الٹاان ججوں میں شامل جسٹس طارق محمودجہانگیری کے خلاف پہلے سوشل میڈیاپر یہ پروپیگنڈہ کیاگیاکہ ان کی ڈگری جعلی ہے ۔ پھرجامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ میں بھی یہ معاملہ لے آیاگیا۔ پروفیسر ڈاکٹرریاض احمد جوسینڈیکیٹ کے رکن ہیں ان کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ قواعد کے مطابق جس کے خلاف شکایت ہے اس کوبھی بلایا جائے لیکن پروفیسر ڈاکٹرریاض احمدکوسینڈیکیٹ کے اجلاس سے باہررکھنے کے لئے انہیں نقاب پوش افراد انہیں اغواکے انداز میں ویگوڈالے میں ڈال کر لے گئے۔انہیں دن بھرغیرقانونی حراست میں رکھاگیا، ذہنی اذیتیں دی گئیں اوررات کوچھوڑاگیا۔پروفیسر ڈاکٹرریاض احمد ایک سچے اوراصول پرست انسان ہیں۔ ڈاکٹرریاض احمدکو 2017ء میںبھی رینجرزنے کراچی پریس کلب سے گرفتار کرلیا تھاجب وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے بزرگ پروفیسر ڈاکٹرحسن ظفر عارف کی گرفتاری کے خلاف دیگر اساتذہ اورطلبہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرنے پہنچے تھے۔ ان کے خلاف اسلحہ کا ایک جھوٹامقدمہ بنادیاگیاتھا۔ پروفیسر ڈاکٹرریاض احمدکی گرفتاری اورانہیں حبس بیجامیں رکھنااورذہنی وجسمانی اذیتیں دینے کاواقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک ایساواقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ میں اس واقعہ کی شدیدمذمت کرتاہوں اورمطالبہ کرتاہوں کہ اس مذموم واقعہ میں جولوگ ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، کراچی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کااجلاس دوبارہ بلایاجائے، اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹرریاض احمدسمیت سینڈیکیٹ کے تمام ارکان کی شرکت کویقینی بنایاجائے ، اجلاس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کوبھی بلایاجائے اورتمام ممبران کی موجودگی میں ان سے ان کی ڈگری کے بارے میں سوالات کئے جائیں اورانہیں بھی اپنامؤقف بیان کرنے کاموقع دیاجائے۔
میں سوال کرتاہوں کہ پروفیسر ڈاکٹرریاض احمدکے اغوااورحبس بیجا میں رکھنے کے اتنے بڑے واقعے پر الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاپر کوئی شورکیوں نہیں اٹھا؟ اگر پروفیسر ڈاکٹرریاض احمدکا تعلق پنجاب سے ہوتا تو کیااس وقت بھی ملک کے تمام ٹی وی چینلزاور پنجاب کے صحافی، اینکرزاورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگار اسی طرح خاموشی رہتے ؟ ڈاکٹرریاض احمد نے2017ء میںکراچی یونیورسٹی کے جس پروفیسر ڈاکٹرحسن ظفر عارف کی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھانا چاہی تھی انہیں بھی جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد حق اورسچ کی آوازبلند کرنے کی پاداش میں آئی ایس آئی نے13جنوری 2018ء کو اغوا کرنے کے بعد سفاکانہ تشددکرکے قتل کردیا تھا اوران کی لاش کراچی کے ویران ساحلی علاقے میں پائی گئی تھی۔ میں سوال کرتاہوں کہ کیا اس وقت بھی پنجاب کے صحافیوں، دانشوروں اورعوام نے ڈاکٹر حسن ظفرعارف کے اغوااورماورائے عدالت قتل کے خلاف کوئی آوازاٹھائی ؟ اگرڈاکٹرحسن ظفر عارف کاتعلق پنجاب سے ہوتاتوکیاپھر بھی وہ اسی طرح خاموش رہتے ؟
پنجاب کے ٹی وی چینلز،صحافی، اینکرزاورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگار جس طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے اینکر ارشدشریف کے قتل کاذکرکرتے ہیں ، کیااسی طرح وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجرصحافی سلیم شہزاد کا ذکرکرتے ہیں جسے آئی ایس آئی نے اسلام آباد سے اغواکرنے کے بعد بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد اس کی تشددزدہ لاش ایک دریامیں پھینک دی تھی؟
کیاپنجاب کے صحافی ، اینکرزاورتجزیہ نگار ایک بلوچ صحافی ساجدبلوچ کاذکرکرتے ہیں جسے آئی ایس آئی نے اپریل 2020ء میں سوئیڈن میں اغواکرکے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش وہاں دریائے فائرز(Fyris River) میں پھینک دی تھی؟
پنجاب کے صحافی ، اینکرزاورتجزیہ نگار انسانی حقو ق کی ایک بلوچ کارکن کریمہ بلوچ کاذکرکیوں نہیں کرتے ہیں جسے آئی ایس آئی نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹومیں اغواکرکے قتل کردیاتھا ؟
کیاڈاکٹرحسن ظفرعارف، سلیم شہزاد ، ساجدبلوچ اورکریمہ بلوچ انسان نہیں تھے؟ کیاپشتونخوا اور بلوچستان میں جوصحافی، وکلاء اوردانشورقتل کردیے گئے ، کیاوہ انسان نہیں تھے ؟ کیاانسان صرف وہی ہوتے ہیں جن کاتعلق پنجاب سے ہوتاہے؟ پنجاب کے صحافیوں، اینکرز، تجزیہ نگاروںاورسیاسی وفاعی تجزیہ نگاروں، طلبہ ،اساتذہ اورعام پنجابیوں کویہ سوچ بدلنی ہوگی کہ صرف پنجاب سے تعلق رکھنے والے کاقتل ہی قابل مذمت ہے ۔ خون ، خون ہوتاہے اوراس کارنگ ایک ہی ہوتاہے، جس طرح قتل پرکسی پنجابی کو تکلیف ہوتی ہے اسی طرح بلوچ، پشتون، سندھی، مہاجر، سرائیکی، کشمیری، گلگتی ، بلتستانی کوبھی ہوتی ہے ، ظلم کسی پر بھی ہواس کوظلم ہی کہاجائے ۔اگرپنجاب کے صحافی ، دانشور، تجزیہ نگاراورعوام دوسری قوموں کے لوگوںکے قتل اوران پر ہونے والے مظالم کودیکھتے رہیں گے اوراس پر خاموش رہیں گے تو اس طرزعمل سے پاکستان کی یکجہتی اورسلامتی برقرار نہیں رہے گی۔ میں پاکستان کوبچاناچاہتاہوں اوراس کے لئے اہل پنجاب کوآگے آناہوگا۔
الطاف حسین
(فکری نشست سے خطاب)