Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

ایک عظیم ماں


ایک عظیم ماں
 Posted on: 12/4/2020


ایک عظیم ماں
محترمہ خورشیدبیگم   کوخراج عقیدت 

   (تحریر… مصطفےٰ عزیزآبادی )

ماںبذات خودایک بہت عظیم ہستی ہوتی ہے ، جس کی عظمت لفظوں میںبیان نہیں جاسکتی۔وہ خداتعالیٰ کی طرف سے قدرتی طورپرعطاکئے ہوئے نظام کے تحت خداکی عظیم مخلوق انسان کوپیداکرتی ہے ، اس کی پرورش کرتی ہے اوراسے انسانیت سے روشناس کراتی ہے۔یہ چندالفاظ توکیا، کئی کتابیں بھی ماں کی عظمت کوبیان نہیں کرسکتیں۔ انسان کے کردارواطوار اور شخصیت کی تعمیرو تربیت میں ماں کابنیادی کردارہوتاہے جسے انسان کی پہلی درسگاہ بھی کہاجاتا ہے اوراسی درسگاہ میں انسان کی شخصیت کی عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ 
ماںسب کی عظیم ہوتی ہے …قابل احترام اورلائق عزت وتکریم ہوتی ہے …لیکن آج ہم جس عظیم ماں کا زکر کررہے ہیں ان کی زندگی… ان کاکردار… ان کی شخصیت… ان کی جدوجہد…اورقربانیاں مثالی ہیں…ان کانام محترمہ خورشیدبیگم ہے ۔ محترمہ خورشیدبیگم ایم کیوایم کے بانی وقائدجناب الطاف حسین کی والدہ تھیں۔جناب الطاف حسین کی شخصیت میں ان کی والدہ مرحومہ کابہت بڑاکردارتھا۔ 

   محترمہ خورشیدبیگم کون تھیں؟ 
محترمہ خورشیدبیگم ہندوستان کے مشہورشہرآگرہ میں ایک روحانی شخصیت حضرت حاجی حافظ رحیم بخش قادری   کے گھر میں پید اہوئیں۔ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد یعنی جناب الطا ف حسین کے ناناحضرت حاجی رحیم بخش قادری   سلسلہء قادریہ کے ایک صاحب طریقت بزرگ تھے۔انہیں بغدادمیں پیران پیر ،دستگیر، غوث الاعظم، حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمت اللہ علیہ کے روضے پرقیام کے دوران خلافت سے نوازا گیا تھا ۔ حضرت حاجی رحیم بخش   نے تقسیم برصغیرسے قبل ہندوستان سے پیدل حج بھی کیا اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت اورفروغ دین میں گزاری ۔ محترمہ خورشیدبیگم نے اپنے والدحضرت حاجی رحیم بخش  سے فیض حاصل کیا اور خود بھی طریقت کی راہ پرچلیں۔ محترمہ خورشیدبیگم کی شادی قیام پاکستان سے قبل یوپی کے مشہورشہر آگرہ کے مفتی اورآگرہ کی جامع مسجد کے امام حضرت مفتی رمضان حسین کے صاحبزادے نذیرحسین سے انجام پائی۔حضرت رمضان حسین آگرہ کی مشہور دینی شخصیت تھے، ان کا شمار مشاہیر اکبرآباد میں ہوتاتھا، وہ مفتی شہرکی حیثیت سے لوگوں میں دین کی تعلیم دیتے ،انہیں فقہ پر عبورتھا، ان کے تحریرکردہ فتوے آج بھی جامع مسجد آگرہ کی لائبریری میںموجودہیں۔ ان کی صحبت میں پرورش پانے والے حضرت نذیرحسین اگرچہ اسٹیشن ماسٹرتھے اور ''بابو صاحب'' کہلاتے تھے لیکن دینی گھرانے سے تعلق کی بدولت وہ خود بھی ایک دین دار اورپرہیزگارشخصیت کے مالک تھے۔ 

محترمہ خورشیدبیگم کے حالات زندگی
قیام پاکستان کے بعد محترمہ خورشیدبیگم اپنے شوہر،بچوں، بھائیوں،بہنوںاورخاندان کے دیگرافرادکے ہمراہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر کراچی آگئیں۔کراچی میں ان کے گھرانے نے پہلے ایبی سینالائن میں رہائش اختیارکی ۔ان کے شوہر یعنی جناب الطاف حسین کے والد جناب نذیرحسین نے کلرک کی حیثیت سے کراچی کے ایک ادارے میں ملازمت اختیارکرلی ۔اس طرح ان کے گھرکاگزربسرہورہاتھا۔ 1953ء میں محترمہ خورشیدبیگم کے ہاں ایک عظیم بیٹے کی ولادت ہوئی جس کانام انہوںنے الطاف حسین رکھا۔ ان کے سات بیٹے اورچاربیٹیاں تھیں۔ 1967ء میں جناب الطاف حسین کے والد جناب نذیرحسین کاانتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعدبچوں کی پرورش، تعلیم وتربیت اور اتنے بڑے خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری محترمہ خورشید بیگم کے کاندھوںپر آگئی۔زندگی کاایک دورایسابھی آیاجب انہیں شدید معاشی مشکلات کاسامناکرناپڑا ۔بعض رشتہ داروں نے انہیں مشورہ دیاکہ آپ کے بیٹے بڑے ہیں انہیں کسی جگہ روزگار پر لگادیں تاکہ آپ کی کچھ مددہوسکے ۔ انہوںنے اس مشورے کوماننے سے انکارکردیا ۔انہوں نے خودکپڑوںکی سلائی شروع کردی لیکن انہوں نے اپنے بچوںکوبہترین تعلیم دلائی اور ان کی بہترین پرورش میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ جب ان کے بڑے بیٹے یعنی جناب الطا ف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین نے سرکاری ملازمت اختیار کی توسرکاری افسر کی حیثیت سے انہیں جہانگیرروڈپر سرکاری کوارٹر الاٹ ہوا۔ اس طرح جناب الطاف حسین کا خاندان ایبی سینالائن سے جہانگیرروڈ منتقل ہوگیا۔ چندسال وہاں رہنے کے بعد 1970ء کے اوائل میں محترمہ خورشید بیگم کاخاندان فیڈرل بی ایریاکے علاقے عزیزآباد کے 120گزکے گھر میںمنتقل ہوگیا۔ 

محترمہ خورشید بیگم کی شخصیت
محترمہ خورشید بیگم جہاں ایک طرف بچوں کی پرورش کرتی تھیں وہیںوہ ایک بڑے کی حیثیت سے خاندان کے تمام افراد کی بھی بہت دیکھ بھال کرتیں۔ خاندان میں کسی کے ہاں شادی بیاہ ہوتی، زچگی ہوتی یاکوئی بھی معاملہ ہوتا تورہنمائی اور مدد کے لئے پہلے انہیں بلایاجاتااورتمام معاملات انہی کی دیکھ بھال اور نگرانی میں کئے جاتے۔وہ سب کے لئے ایک بزرگ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اگرچہ ان کااپناکنبہ بڑا تھا وہ اکثرخود مشکلات کاشکارہوتیں لیکن خاندان کاکوئی فردکسی مشکل کا شکار ہوتا توآپ ہرطرح سے اس کی مدد کرتیں۔ ان کے دروازے پر کوئی بھی سائل آتاتواس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔یہ سلوک اور طرزعمل صاحبان طریقت کے خاندان سے نسبت کی بدولت انہیں ورثے میں ملا تھا ۔ وہ بہت مہمان نواز خاتون تھیں اور دوسروں کو کھلاپلاکربہت خوش ہوتیں۔ان کی کڑھی پورے خاندان میں مشہور تھی۔ وہ جب بھی کڑھی پکاتیں تونہ صرف پڑوس میں بلکہ پورے خاندان میں بانٹتی تھیں۔ان کا گھر دوکمروںپرمشتمل تھاجس میں دوبڑے شادی شدہ بیٹے بھی رہتے تھے لیکن دوسر ے شہروںسے جب بھی کوئی رشتہ دارکراچی آتاتو وہ ان کے گھرمیں قیام کرتا لیکن ان کے ماتھے پرکبھی کوئی شکن تک نہ آتی۔ بعض اوقات بیٹے شکوہ بھی کرتے کہ ہماراگھرچھوٹاہے اوراس میں مہمان بھی آجاتے ہیں اورکئی دن قیام کرتے ہیں ۔ محترمہ خورشیدبیگم اس پر اپنے بچوںکوسمجھاتیں کہ مہمان خداکی رحمت ہوتے ہیں، برکت لاتے ہیںلہٰذاان کی خاطرمدارات کرنا، خودبھوکارہ کر ان کو کھلاناکارثواب ہے۔ محترمہ خورشیدبیگم نے اپنے جدامجد کی تعلیم وتربیت کی روشنی میں اپنے بچوں کو بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کی بہترین تربیت کی ۔انہیںدوسرے انسانو ں کے ساتھ حسن سلوک ، رواداری، ضرورت مندوں کی مدداوربے لوث خدمت اورہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی۔ 
  اپنی والدہ کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے جناب الطاف حسین لڑکپن میں جب بھی سودالینے بازارجاتے تومحلے کی خواتین ان سے اپنے گھرکاسودابھی منگواتی تھیں اوروہ کسی کو انکارنہیں کرتے اورسب کی مدد کرتے۔ ایک مرتبہ محلے کی ایک خاتون نے جناب الطا ف حسین سے بازارسے پھل منگوائے ، انہوں نے پھل لاکردینے پر جناب الطاف حسین کودعائیں دینے کے ساتھ ساتھ خوش ہوکر ایک سیب بھی دے دیا۔ وہ سیب گھرلے گئے تومحترمہ خورشیدبیگم نے بیٹے سے پوچھاکہ '' یہ سیب کہاں سے لائے ہو ؟  ''۔ بیٹے نے جواب دیا'' محلے کی فلاں خاتون کومیں نے پھل اورسبزی لاکر دی تھی ، انہوں نے دیاہے '' ۔یہ سن کر محترمہ خورشیدبیگم نے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا '' کیا تم کسی کی مدد اسلئے کرتے ہو کہ اس کے صلے میں وہ تمہیں کچھ دے ؟ اگر کسی کی مددکرو تو اس کے جواب میں اس سے کچھ نہ لو،سب کی بے لوث مددکرو، جاؤ جاکرانہیں یہ سیب واپس کرو۔ ''  

مہاجرتحریک کا آغاز اور محترمہ خورشید بیگم کاکردار
  محترمہ خورشیدبیگم نے اپنے اسلاف کی تعلیم وتربیت کے مطابق اپنے بچوںکو ہمیشہ سچ بولنے ،حق بات کہنے، مظلوموںکی مدد کرنے اورظلم کوظلم کہنے کی تعلیم دی۔جناب الطاف حسین پراپنی والدہ کی تربیت کاخاص اثرہوااورانہوں نے بچپن ہی سے اپنے گردوپیش کے حالات وواقعات کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ 1964ء میں جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت نے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد جشن فتح کے جلوس کے نام پر کراچی کے علاقوں لالوکھیت ، گولیمار، گلبہار، جہانگیرروڈ اور دیگر مہاجرعلاقوںپر مسلح حملے کرائے توجناب الطاف حسین نے کم عمری سے ہی سوچناشروع کیاکہ مہاجروںپر یہ ظلم کیوں کیاجارہاہے؟ حالانکہ اس وقت ان کی عمر محض 11سال تھی۔ وہ بزرگوںسے بھی اس بارے میں سوال کرتے لیکن کوئی انہیں مناسب جواب نہیں دیتا ۔ ان کی والدہ انہیں اس بارے میںحقائق بتاتیں ۔ 70ء کی دہائی میں پیش آنے والے واقعات 74ء کے لسانی فسادات اوردیگر واقعات نے جناب الطاف حسین کی سوچ وفکر پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ کافی عرصہ تک جامعہ کراچی میں دیگرمہاجرطلبہ کے ساتھ مسلسل غوروفکرکے بعد انہوں نے 11جون 1978ء کو مہاجروں کے حقوق کے لئے ''  آل پاکستان مہاجراسٹوڈینٹس آرگنائزیشن  '' قائم کی۔

مارشل لاء دورکاظلم اور ایک ماں کی بے مثال جرات
    ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک پر جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے جبرکا دوردورہ تھا…جب کسی بھی قسم کی آواز اٹھانا بہت بڑاجرم تھا،جبر کے ایسے ماحول میںجناب الطاف حسین نے مہاجرتحریک کاآغاز کیا…بیٹے نے ملک میں رائج جبر کے نظام کے خلاف اپنی تحریک کاآغاز کیالیکن محترمہ خورشید بیگم نے مہاجرتحریک شروع کرنے پراپنے بیٹے کونہیںروکا…ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی ہمت بڑھائی…ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ ابھی آل پاکستان مہاجراسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کو قائم ہوئے ایک سال ہی گزراتھا کہ جناب الطاف حسین نے دیگرطلبہ کے ساتھ 14اگست 1979ء کوبنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں ، جنہیں بہاری کہاجاتاتھا،کی وطن واپسی کے لئے قائداعظم کے مزارپرایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہر ہ جیسے ہی شروع ہوا فوج اورایف سی نے وہاں دھاوا بول دیااورجناب الطاف حسین اوران کے دیگرساتھیوںکوگرفتارکرلیا۔ گرفتاری کے بعد جناب الطاف حسین کوفوج کے ٹارچرسیلوںاورسیف ہاؤسزمیں کئی روز تک تشددکانشانہ بنایاگیااوران پر مہاجرتحریک چھوڑنے کے لئے دباؤڈالاگیا۔ جب انہوں نے انکارکیاتوسمری ملٹری کورٹ سے انہیں پاکستانی پرچم کی توہین کے ایک جھوٹے مقدمے میں 9 ماہ قید اورپانچ کوڑوں کی سزا دیدی گئی اور کراچی سینٹرل جیل میں قید کردیا گیا ۔ گرفتاریوں سے بچنے کے لئے تحریک کاکوئی کارکن ان سے ملاقات کے لئے جیل نہیں آتاتھا،صرف جناب الطاف حسین کے چھوٹے بھائی اسرارحسین ان سے ملاقات کے لئے جیل آتے تھے۔ جیل میںقید کے دوران فوج کے نمائندے جناب الطا ف حسین کے پاس آئے اور انہیں پیشکشیں کی گئیںکہ اگرتم معافی نامہ لکھ کردیدو اور مہاجرتحریک چھوڑدو توہم تمہیں رہاکردیں گے اور تمہیں پی آئی اے، کسٹمزمیں اچھی نوکری دیدیںگے اورپیسہ بھی دیدیںگے ۔ جناب الطاف حسین اس وقت ایک طالبعلم تھے … نوجوان تھے … تحریک شروع ہوئے ابھی محض ایک سال ہواتھالیکن انہوں نے فوج کی ان پیشکشوں کو ٹھکرادیا ۔ جب فوج کے نمائندوں کی جانب سے دباؤ بڑھنے لگاتو جناب الطاف حسین نے ایک روزاپنی والدہ کوسینٹرل جیل بلایااوران سے کہاکہ '' فوج کے لوگ مجھ پر تحریک چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ رہائی کے لئے معافی نامہ لکھ کردو، وہ مجھے خریدنے کے لئے طرح طرح کی پیشکشیں بھی کررہے ہیں، میں نے فوج کی تمام پیشکشوںکوٹھکرادیاہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ اب آپ کے پاس آئیں اورمیری رہائی کے لئے آپ سے معافی نامہ لکھنے کے لئے کہیں، اگر آپ نے معافی نامہ لکھ کردیا تو میںاس کے نتیجے میں رہاتوہوجاؤںگالیکن میں گھرنہیں آؤںگا، کیونکہ مجھے ایسی رہائی قبول نہیں ہے '' ۔ بیٹے کی جراتمندانہ بات سن کر ماں نے جواب دیا ''  بیٹا!  تم فکر نہ کرو ،میں تمہاراسرشرم سے جھکنے نہیں دوں گی اورکسی بھی قیمت پر معافی نامہ لکھ کر نہیں دوںگی '' ۔ ماںنے بیٹے کودعائیںدیںاورہمت بندھائی۔ ماں کی بات سنکربیٹے کی ہمت اوربڑھ گئی۔ 
جناب الطاف حسین کاخدشہ صحیح نکلا۔ فوج اورسرکاری ایجنسیوںکے کچھ افسران کراچی یونیورسٹی کے پرووسٹ کے ہمراہ پیشکشیں لے کر عزیزآبادمیں جناب الطاف حسین کے گھرپہنچے ۔ اس موقع پر محترمہ خورشیدبیگم اورسرکاری ایجنسیوں کے افسران کے درمیان جو گفتگوہوئی وہ ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔ سرکاری ایجنسیوںکے افسران نے جناب الطاف حسین کی والدہ سے کہاکہ '' آپ کے بیٹے نے محصورپاکستانیوں کے لئے مظاہرہ کیا ہے ، ملک میں مارشل لاء ہے، کسی قسم کے بھی مظاہرے کی اجازت نہیںہے، کیونکہ آپ کے بیٹے نے مارشل لا حکومت کاقانون توڑاہے لہٰذ ااگر آپ اپنے بیٹے کی رہائی چاہتی ہیں تو تحریری طورپرمعافی نامہ لکھ دیں ،ہم آپ کے بیٹے کو چھوڑدیںگے '' ۔ یہ سنکرمحترمہ خورشیدبیگم نے سرکاری ایجنسیوں کے افسران کو جوجواب دیاانہیں اس کی توقع نہیں تھی۔انہوں نے جواب دیا '' میرابیٹا حق پرہے، میں کس بات کا معافی نامہ لکھ کردوں؟ میرے بیٹے نے مہاجرین مشرقی پاکستان کی وطن واپسی کے لئے مظاہرہ کیا ہے … اس نے کوئی جرم نہیں کیا… کوئی غلط کام نہیں کیا… میں معافی نامہ نہیں لکھ سکتی '' ۔ یہ جواب سناتویونیورسٹی کے پرووسٹ نے ایک جذباتی وار کرتے ہوئے محترمہ خورشیدبیگم سے کہا '' دیکھئے ! رمضان کامہینہ ہے، عید الفطر قریب ہے، کیاآپ نہیں چاہتیں کہ آپ کا بیٹا رہا ہوجائے اور آپ کے ساتھ گھرپرعیدمنائے ؟ آپ معافی نامہ نہیں لکھ سکتیں تواتناہی لکھ کردیدیںکہ میرابیٹا مظاہرے میں شریک نہیںتھا '' ۔ یہ سنناتھاکہ محترمہ خورشیدبیگم اٹھ کرکھڑی ہوگئیں ،اس مرتبہ انہوں نے جو جواب دیاوہ ایک ماںکانہیں بلکہ ایک ولی کی بیٹی کاتھا ، انہوںنے فرمایا ''  میں حافظ حاجی رحیم بخش   کی بیٹی ہوں، میرے باپ نے مجھے پہلی تعلیم ہی سچ بولنے کی دی ہے ، میں جھوٹ نہیں بول سکتی، میرابیٹا اس مظاہرے میں شریک تھا، آپ اسے رہاکریں یانہ کریں، میں نہ کوئی معافی نامہ لکھوں گی اورنہ ہی کوئی جھوٹ لکھوںگی '' ۔ محترمہ خورشیدبیگم کایہ جواب سن کرفوجی ایجنسیوںکے افسران اوریونیورسٹی کے اساتذہ حیران وپریشان ہوگئے اورناکام ہوکر واپس چلے گئے ۔بیٹے کی جرات وبہادری اورماں کی ثابت قدمی دیکھ کرفوج کے حکام اوریونیورسٹی کے اساتذہ متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکے۔
  کس ماں کادل چاہے گاکہ اس کابیٹاجیل میں قیدرہے اورایسے وقت میں جبکہ عید بھی قریب آرہی ہولیکن محترمہ خورشیدبیگم نے اس موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹے کی محبت اوراپنی مامتا کوسچائی کے اصولوں پرقربان کردیا ۔ بالآخر جناب الطاف حسین نے اپنی قید کی سزاپوری کرکے رہائی حاصل کی ۔ جب وہ رہاہوکرگھرواپس پہنچے تو ماں سے گلے لگ کر ان کی عظمت کوسلام کیا۔ ماں نے بھی بیٹے کے سرپردست شفقت پھیرکردعائیںدیں اوریہی تلقین کی کہ بیٹاتم نے محروموںکے حقوق کے لئے جو جدوجہدشروع کی ہے اسے ختم نہ کرنا،کبھی اپنے اصولوںپر سودے بازی نہ کرنا، اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ ثابت قدم رکھے۔ 

گھریا تحریک کامرکز
رہائی کے بعد بھی محترمہ خورشیدبیگم اپنے بیٹے کی ہرقدم پر رہنمائی کرتیں…ان کی ہمت بڑھاتیں…تحریک کادائرہ دیگرتعلیمی اداروںمیں پھیل رہا تھا۔ جب 3فروری 1981ء کو مارشل لا حکومت کی بی ٹیم جماعت اسلامی کی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے مسلح افراد نے جناب الطاف حسین اوران کے ساتھیوںپر مسلح حملہ کرکے کئی طلبہ کوزخمی کیا اور تشددکرکے انہیں کراچی یونیورسٹی سے نکال دیا۔ جناب الطاف حسین اوران کے ساتھیوںپرتعلیمی اداروں کے دروازے بند کردیئے گئے ۔ مہاجروںکی اس نوزائیدہ تنظیم کواپنے ہی شہرکے تعلیمی اداروںمیںکام کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ جب اس طلبہ تحریک کوتعلیمی اداروںمیں کام کرنے کے راستے بندکردیے گئے توجناب الطاف حسین اوران کے ساتھیوںنے علاقوں میں چھپ کرتحریک کاپیغام پھیلاناشروع کردیا۔ محترمہ خورشیدبیگم کاگھرجوپہلے خاندان کامرکز بناہواتھاوہ 1981ء کے بعد تحریک کامرکز بن گیا ۔ تحریک کے کارکن جناب الطاف حسین سے ملاقات کرنے اورتحریک کے پیغام کو پھیلانے کے سلسلے میں انکے گھرآتے تو محترمہ خورشیدبیگم تحریک کے تمام کارکنوں کااپنے بیٹوں کی طرح خیال رکھتیں اورانہیں طرح طرح کے کھانے پکاکر کھلاتیں … تحریکی کاموں میں بھی ان کی مدد کرتیں۔ یوں وہ جناب الطاف حسین کے ساتھیوں کی بھی امی بن گئیں۔ 

ماں اوربیٹے کی بے مثال محبت
محترمہ خورشیدبیگم اپنے بیٹے الطا ف حسین سے خاص ہی محبت کرتی تھیں،جناب الطاف حسین بھی اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کابہت خیال رکھتے ۔تحریکی کاموںکی وجہ سے جناب الطاف حسین کئی کئی روز تک گھرنہیں آتے تھے لیکن جب بھی وہ گھرآتے ،پہلے اپنی والدہ کی خدمت میں حاظرہوتے، دیرتک ان کے پاس بیٹھ کرباتیںکرتے ۔ یہ 5دسمبر1985ء کی بات ہے، جناب الطاف حسین گھرپر نہیں تھے، کہیں تحریکی کاموں میں مصروف تھے لیکن انہیں ایک عجیب سے بے چینی ہورہی تھی، وہ فوراًگھرپہنچے،محترمہ خورشیدبیگم کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ بیٹے کودیکھاتواٹھ کربیٹھ گئیں اور بہت خوش ہوئیں۔کچھ دیربعد ان کی طبیعت پھر اچانک بگڑنے لگی۔ جناب الطاف حسین انہیں کارمیں بٹھاکراسپتال لے جارہے تھے، والدہ کاہاتھ جناب الطاف حسین کے ہاتھ میں تھا،وہ ماں کودیکھتے رہے ،ماں بھی انہیں دیکھ کرکچھ پڑھتی رہیں، کچھ دیربعد ماں نے بیٹے کاہاتھ زورسے دبایااورپھربیٹے کے شانے پر سررکھ دیااوراسی عالم میں وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔ ( اناللہ واناالیہ راجعون ) 
یہ ایک عظیم خاندان اورمحترمہ خورشیدبیگم مرحومہ   کی ہی تعلیم وتربیت تھی کہ جناب الطاف حسین نے کبھی اپنے اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی۔ رمحترمہ خورشیدبیگم  جناب الطا ف حسین کی صرف ماں ہی نہیں تھیںبلکہ انہوںنے جناب الطاف حسین کو حق گوئی اورمظلوموں کے حقوق کیلئے جدوجہدکی جوراہ دکھائی اورآزمائش کے دورمیں جس عزم وہمت اور ثابت قدمی کامظاہرہ کیاوہ تمام ہی ماؤںبہنوں کے لئے ایک بہت ہی روشن مثال ہے۔ راقم ہی نہیں بلکہ تمام قارئین، حق پرستی کی تحریک میں شامل تمام افراد اورحق کی راہ پرچلنے والے تمام ہی افراد آج اس عظیم ہستی محترمہ خورشیدبیگم   کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ محترمہ خورشیدبیگم   کوجنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطافرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین ،ثمہ آمین۔





                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    



4/18/2024 5:46:55 AM