آفتاب احمدشہیدکی آواز۔۔۔
تحریر:مصطفےٰ عزیزآبادی
حق کی آواز کو طاقت سے دبانے والو
روز اک تازہ ستم قوم پہ ڈھانے والو
امن کے نام پہ اس شہر کو کھانے والو
میرا خوں شان سے سینے پہ سجانے والو
تم نے سمجھا تھا مرے قتل کی سچائی کو
تم مرے شہر کے لوگوں سے چھپاسکتے ہو
سامنے آ نہ سکے گی یہ حقیقت میری
تم اسے کوئی فسانہ ہی بناسکتے ہو
وہ تشدد سے نکلتی ہوئی چیخیں میری
یونہی مقتل میں اٹھیں گی وہیں دب جائیں گی
وہ صبح شام بلند ہوتی ہوئی فریادیں
یونہی دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئیں گی
وہ مرا خوں جو بہایا سرِ مقتل تم نے
چار دیواری کے اندر کہیں کھوجائے گا
چند لمحوں کے لئے اشک بہیں گے اور پھر
میرا لاشہ بھی تہہ خاک ہی سوجائے گا
ہاں وہی خون جسے تم نے چھپانا چاہا
آج مقتل سے نکل کر سرِبازار آیا
آج ہر ایک زباں پر مرا افسانہ ہے
آج ہر شخص ہی بنکر مرا غم خوار آیا
آج ہر شہر میں ہر بزم میں ہر کوچے میں
ہر صدا میں ہی لہو بول رہا ہے میرا
آج میں زندہ و جاوید ہوں ہر نعرے میں
گرچہ یہ جسم تہہ خاک ہوا ہے میرا
تم نے اک جسم کو مارا ہے مگر یہ سن لو
زندگی قوم میں ہر سمت چمک اٹھی ہے
تم نے نفرت سے جلایا تھا مجھے مقتل میں
آگ ہر شخص کے سینے میں بھڑک اٹھی ہے
گر یہ شعلے جو کہیں سینوں سے باہر نکلے
سامنے ان کے جو آئے گا جھلس جائے گا
دستِ قاتل نے دکھایا جو کہیں زورِ ستم
پھر کسی طور یہ سیلاب نہ رک پائے گا
قتل گاہوں سے بلند ہوتی ہوئی آوازیں
اب کسی طور بھی خاموش نہ رہ پائیں گی
بہنوں اور بچوں کے یہ اشک، یہ ماں کی آہیں
درودیوار نہیں عرش ہلا جائیں گی
بے نقاب ہوگیا ہر ظلم بھی اور ظالم بھی
آج پوشیدہ یہاں اب کوئی صیاّد نہیں
چیخ اٹھاّ ہے زمانہ مرے قاتل کے خلاف
بے اثر اب کوئی نالہ، کوئی فریاد نہیں
اب بھی ہے وقت کہ یہ جبروستم بند کردو
شہر کو اب یہ کسی طور بھی منظور نہیں
صبر اور جبر کا پیمانہ ہوا ہے لبریز
یہ ہمیشہ رہے، ایسا کوئی دستور نہیں
رنگ لائے گا مرے سارے شہیدوں کا لہو
رائیگاں اب نہ کوئی خون یہاں جائے گا
مل ہی جائے گی ہر اک درد کو راحت آخر
اس کٹھن راہ میں آخر وہ مقام آئے گا
لندن
10 مئی 2016ء