خیابانے چلو۔۔۔ورنہ تھانے چلو
(خیابانِ سحروالوں کے نام)
حاکمِ وقت کا یہ ہی فرمان ہے
بچ نہ پائے گا وہ جس میں ایمان ہے
اب مقدر ہی بس اس کا زندان ہے
تھانیداروں کا بھی اب یہ اعلان ہے
اب سزا اپنے حصے کی پانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
تجھ کو بنگلے میں راحت بھی مل جائے گی
ڈھیر ساری یہ دولت بھی مل جائے گی
چند لمحوں میں شہرت بھی مل جائے گی
کچھ دنوں میں حکومت بھی مل جائے گی
بیچ کر خود کو سب کچھ ہی پانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
تو ہے نادان عزت پہ مرتا ہے کیوں
اپنی ہی آگ میں روز جلتا ہے کیوں
ظرف کی بات پر یوں بگڑتا ہے کیوں
بے وفائی کے طعنے پہ لڑتا ہے کیوں
آؤ دولت پہ سب کچھ لٹانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
کیوں بنائے رہیں یہ شراف کے بت
اپنی تہذیب کے اور ثقافت کے بت
یہ لحاظ و مروت، روایت کے بت
یہ بزرگوں کی عزت، عبادت کے بت
اپنے پیروں سے ان سب کو ڈھانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
جس کے دم سے یہ نام اور یہ شان ہے
جس کے دم سے زمانے میں پہچان ہے
جس کا تم سب کی نسلوں پہ احسان ہے
نام پر جس سے شانِ گلستان ہے
اب اسی نام کو ہی مٹانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
کس قدر بدنما ان کی تصویر ہے
ان کے پیروں میں دشمن کی زنجیر ہے
اب یہی بے ضمیروں کی تقدیر ہے
مٹنا اب ان کے خوابوں تعبیر ہے
اپنے جذبوں کو اب آزمانے چلو
خیابانے چلو ورنہ تھانے چلو
مصطفےٰؔ عزیزآبادی
2مئی 2016ء