Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

خدا تیرا سایہ تادیر سلامت رکھے تحریر:ڈاکٹر مسرور احمد زئی

 Posted on: 9/17/2014   Views:2355
خدا تیرا سایہ تادیر سلامت رکھے تحریر:ڈاکٹر مسرور احمد زئی سیاست تہذیب سے ہم رشتہ ہو جائے ، یا سیاسی تدّ بر تربیت کا ذریعہ اور وسیلہ ہوجائے تو وہ سیاسی شخصیت سیاسی تعلیم کا نصاب بن جاتی ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ حالات کی تبدیلی ،زمانے کے تغیّر ، وقت کے نشیب و فراز ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ شخص میں استقامت ، استقلال اور استحکام کی کتنی قوت ہے ۔اس کے بعد ہی وقت خود فیصلہ دیتا ہے کہ جس دئیے میں جان ہوتی ہے وہ دیا رہ جاتا ہے ۔ہوا نے کبھی بھی روشن چراغ اور وہ بھی ایسا چراغ جو ہوا کے دوش پر رکھا ہوایسے چراغ سے ہوا نے کبھی دوستی نہیں کی لیکن اگر چراغ روشن تاب میں دم ہوگا اندھیروں سے لڑنے کا تیرگی کے سینے میں اتر کر ضوفشانی کردینے کا اور دور تک چراغِ رہ گزر بنا کر نسلِ نو کی آمد کے استقبال کا تو پھر ہوا ہا ر جاتی ہے اور جب ہوا کو اپنی شکست نظر آنے لگتی ہے تو وہ اپنی نوا میں حمایت اور مدد میں طوفان کو آواز دیتی ہے ۔ طوفان جو ہوا کا امام ہے ، تیرگی کو مٹانے والے چراغ کو مٹانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔اْدھر طوفان کی طاقت ، ادھر چراغ کی استقامت، اْدھر طوفان کی تباہی ، ادھر چراغ کی بادشاہی ، اْدھر طوفان کی سیاہ گری ، ادھر چراغ کی سپاہ گری ، تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لمحے پر یا ایسے محاذ پر طوفان کو دروغِ دیوزاد کی طرح شکست ہوتی ہے اور چراغ کو ملکہ صداقت بیگم کی طرح فتح ، طوفان اپنی شکست کا زخم چاٹتا ہے اور چراغ اپنی اقبال مندی کا جھنڈا لہراتا ہے ۔
اس صدی نے الطاف حسین کے نام سے ایک ایسا ہی چراغ روشن کیا ہے جو آزمائش کے طوفان ،امتحان کی کالی آندھی ، پریشانی کے سیلاب ، دشواری کے مرحلوں سے مقابلے میں محض اس لیے فتح مند اور ظفر یاب ہوا کہ اس کے کردار میں انصاف ، لہجے میں للکار ، لفظ میں مرہم کی حرارت ، نظر میں دوراندیشی کی روشنی ، نگاہ میں مردم شناسی کی چمک ، زندگی میں انقلاب کی نوید اور فکرِ فردا میں نسلِ نو کی تہذیب کا جذبہ ہے ، جس نے وقت سے سمجھوتہ نہیں کیا ، اس کو وقت نے ہمیشہ سلام کیا ہے ، جس نے ضرورت پر سودے بازی نہیں کی اس کو ضرورت نے بھی سر اْٹھا کر دیکھا ہے ، جس نے آزمائش پر اپنی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑا ، اسے قوم نے اپنی پلکوں کے شامیانے میں رکھا ہے ، جس نے قربانی سے دریغ نہیں کیا ، قربانی نے اس کی قدم بوسی کی ہے ۔ اس لیے کہ اس شخصیت کا نصابِ حیات ، نظریہ زیست یہ ہوتا ہے کہ  وفا کر کے جو نکلے تو سزاوار چلے  سجا کے زخم لبوں کے ہم بے شمار چلے  جلا کے شمع بہت روئے رات بھر ہم بھی  دکھوں کا کفن اُٹھا کر ، دل فگار چلے  عزیزانِ من : قصیدہ سرائی اور حقیقت گوئی میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ تاریخ ان دونوں کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ نے بہت سے روشن نام اپنی جبیں پر سجائے لیکن ایک نام جو روشن تاب ، آفتاب رہا وہ الطاف حسین کااس لیے کہ جس نے وطن سے دور رہ کر بھی وطن کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈالا ، جس نے فکرِ فردا میں اپنا لہو جلایا اور جس نے نسلِ نو کی تہذیب میں اپنا سب کچھ وار دیا ،اس شخص کی تعریف و توصیف میں محض قصیدہ سرائی ممکن نہیں بلکہ حقیقت نگاری کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ دنوں جب عالمی سطح کی ایک تفتیش نے آپ کو پابندِ سلاسل کرنے کی کوشش کی تو تاریخ نے دیکھا کہ پاکستان کے کوچے کوچے میں ہر پریس کلب کے سامنے ہزاروں کا نہیں لاکھوں کا مجمع رات اور دن خاموش بیٹھا رہا ، یہ کیسا احتجاج تھا ، جس میں تہذیب کے رنگ اور تعلیم کی ایسی روشنی تھی جو ازخود اپنی مثال آپ تھی ، یہ اپنے قائد سے اظہارِ یکجہتی کا کیسا انداز تھا ، جس سے باطل کے سینے لرز اْٹھے ، یہ کامیابی کی ایسی نوید تھی جس کو جرسِ کارواں کہنا اور با نگِ درا کہنا صحیح ہوگا ۔آج اگر اس طبقے کی معاشرے میں فضیلت ہے تو اس کا سہرا بھی ایسی بے مثل قیادت کے سر جاتا ہے ، ورنہ فرزانہ صدف کے بقول  بس تیری عنایت ہے دستارِ فضیلت بھی ورنہ میرے ہم دم کب کون سمجھتا ہے 
آئیے کہ اس موقع پرہم اس شخصِ بے مثال اور شخصیتِ بے مثل کی درازی عمر کی دُعا کریں ، جس سے اُجا لوں کی اُمید اور صبحِ روشن تاب کی نوید ہے ۔اب وہ وقت دور نہیں جب تیرگی کے سینے میں اُجالوں کا اہتمام ہوگا ۔ جس کا ہمیشہ یہ نصاب رہا ہے کہ ، تو نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول  لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول ایک اور بات یہ بھی ضروری ہے کہ جب ہم فکرِ الطاف کا مطالعہ ، تحریکِ الطاف اور اس کا فلسفہ حیات دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نوجوان کو مستقبل کے لیے ایک ستارہ روشن سمجھتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ذہنی تربیت ، فکری تہذیب اور کردار کی تطہیر کردی جائے اور نوجوان فطری آئین اور قانون کی پابندی کریں ، حصولِ حق کی کوشش کریں ، مساوات کو بہتر سمجھیں ، زر پرستی اور مادیت کی تمنا کو خیر باد کہہ دیں ، حصولِ تعلیم کو اپنا شعار سمجھیں ، معاشرتی زندگی کو مثالی بنا لیں اور اپنا مقام پہچان لیں تو حیاتِ الطاف کا مقصد اور فکرِ الطاف کو منزل مل جائے بقول اقبال وہ یہی کہتے ہیں کہ،  نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے یہ جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے توبس ، ہم سب کی یہ ہی دْعا ہونا چاہیے کہ \" خدا تیرا سایہ تادیر سلامت رکھے \" ۔