Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

جاوداں تحریک ... تحریر:خالدہ اطیب

 Posted on: 3/18/2015   Views:1687
جب فکر و سوچ کا زاویہ بدلتا ہے تو جدوجہد انقلاب کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ مصائب اور مشکلات، ظلم و ستم کے ساتھ آگ اور حون کا دریا عبور کیا جاتا ہے۔ لیکن منزل تک صرف وہ لوگ پہنچتے ہیں جن کے جذبے صادق عزم، جواں اور ارادے پہاڑوں کی طرح اٹل ہوتے ہیں۔ اسٹیپلشمنٹ اور ریاستی قوتوں کے جبروتشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود نظریاتی کارکن اپنی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
ایم کیو ایم بھی ایک ایسی ہی جماعت ہے جو حق تلفیوں اور شناخت کو تسلیم نہ کیے جانے کا کرب سہہ کر وجود میں آئی۔ تقسیمِ ہند میں ایک سوچ بنیادی کردار ادا کررہی تھی کہ ہمیں پاکستان میں وہ بنیادی حقوق میسر ہوں گے جن سے ہم محروم ہیں۔ مذہبی آزادی ہوگی ملازمتوں سے لے کر داخلوں تک اور رہن سہن سے لے کر بنیادی حقوق تک سب کچھ میسر ہوگا لیکن خواب آہستہ آہستہ چکنا چور ہوگئے۔ وقت گزرتا رہا، امید کا دیا ٹمٹماتا رہا لیکن پاکستان بنانے والوں اور لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی دینے والوں کو فرزندِ زمین نہ سمجھنے کا عمل جاری رہا۔ تاریخ گواہ ہے جب جب قوموں نے یہ رویہ اپنایا بغاوت کا راستہ ہموار ہوا اورجب بغاوت انقلاب جانب جاتی ہے تو سب کچھ بدل کے رکھ دیتی ہے۔ ایسا ہی عمل 1978ء میں ہوا جب جامعہ کراچی میں داخلہ نہ ملنے پر نوجوانوں کے ایک گروپ نے انتظامیہ کے خلاف مورچہ لگایا اور پھر منظم ارادوں اور اٹل جذبوں کے سامنے کوئی نہ ٹہر سکا۔ تعلیمی اداروں سے جنم لینے والی تحریک عملی حملوں میں پھیل گئی یوں محسوس ہوا جیسے صحرا میں بارش ہوگئی ہو۔ برسوں سے کچلے پسے ہوئے عوام ایم کیو ایم کے گرد اکٹھا ہونے لگے۔ یقیناًبیداری کا یہ سفر جس کے میرکارواں جناب الطاف حسین بھائی ہیں قدم بہ قدم اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔ لیکن یہ خون آشام سفر لہو کے نذارانے لیتا رہا ہور قائد کے متوالے تحریک کے سچے کارکن اپنے لہو کے دیئے جلا کر راستے کا اندھیرا دور کرتے رہے تاکہ کارواں کو روشنی فراہم کرتے رہیں۔ ظلم، تعصب اور ناانصافیوں کا کرب سہنے والے اپنے قائد الطاف حسین کی رہبری اور رہنمائی میں آگے بڑھتے رہے۔ انتھک محنت اور تنظیمی نظم و ضبط سے ایم کیو ایم نے سندھ کی دوسری اور پاکستان کی تیسری بڑی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ قائدِ تحریک نے ایک نکتے کومحور بناکر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک یہ تفریق ختم نہیں ہوگی۔ اس وقت تک حالات درست نہیں ہوسکتے۔ ایوانوں کی نشستوں پر اپنا حق سمجھنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کو حیرت ذدہ کردیا جب ان کے برابر ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کو منتخب کراکر اسمبلیوں میں بھیجا۔ قائدِ تحریک نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ پڑھے لکھے اور باصلاحیت انسان کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کے اسی طرح داخلوں اور ملازمتوں میں بھی اسی اصول کو کافرما رکھے جانے کا مطالبہ کیا۔ کوٹہ سسٹم کی لعنت سے نجات کی جدوجہد کی یہ تمام آوازیں ایک گونج کی صورت ایوانوں میں پہنچیں اور حکامِ بالا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ حق داروں کا حق آسانی سے غضب نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم کی سیاست دراصل نظام کی تبدیلی کے لیے ہے فرسودہ جاگیردارانہ نظام جس نے اپنا شکنجہ بہت مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا اس شکنجے پر ضرب لگانا آسان نہ تھا لیکن مشکل وقت میں مشکل فیصلے کرنا ہی قائدِ تحریک کا وصف اور وطیرہ ہے۔ اس بناء پر انہوں نے یہ کانٹوں بھرا راستہ چنا کیونکہ آنے والی نسلوں کی بقاء اور بہتری کے لیے یہ عمل ضروری تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر یہ سوچ سارے مظلوموں کے دل کی آواز بن گئی 98فی صد مظلوم مراعات یافتہ طبقے سے نجات کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور پھر کشمیر گلگت بلتستان تک روشنی کی یہ کرن پھلتی چلی گئی۔ تاریکیوں نے ڈیرے اٹھا لیے لیکن برسوں سے جاری آمازئشوں کا یہ سفر جاری ہے۔ راستہ پرخار ہی نہیں پرآشوب بھی ہے۔ لیکن قائد کے متوالے فکرو فلسفے سے جڑے یہ کارکن اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ صرف اس امید پر کہ پتھر پر بھی پانی قطرہ قطرہ گرتا رہے تو گڑھا بنا دیتا ہے۔ یقیناًقربانیاں رنگ لائیں گی۔ قائدِ تحریک جناب الطاف حسین کا صادق حذبہ ایک دن خوشیوں کا پیغام لائے گا۔ کیونکہ انقلابی تحریکیں لمحہ بہ لمحہ اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ سچا نظر یہ اور یکر و فلسفہ ہی انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے۔ الطاف حسین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر قسم کی ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمے کے بغیر قومی یکجہتی کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ ایم کیو ایم اور اس کا قائد پاکستانی قوم کے تصور کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ تحریک کے ابتدائی ایام سے آج تک جناب الطاف حسین نے پاکستانیت کی بات کی کیونکہ یہ ملک ہمارے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اسی بناء پر اس کی حفاظت بھی ہمارا اولین فریضہ ہے۔ ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے یہ مطمۂ نظر رہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہ کر سب پاکستانیوں کے برابر حقوق دیئے جائیں۔ ہماری حیثیت اور شناخت کو تسلیم کیا جائے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک ہم برداشت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم سیاست برائے خدمت پر یقین رکھتی ہے۔ عوامی نمائندے عوامی خدمت اور بھلائی کے کاموں کو ترجیح دیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ قائدِ تحریک کی رہنمائی میں تحریک نے بہت اہم منازل طے کیں ان کی دور اندیشی اور سیاسی تدبر کا نتیجہ ہے کہ آج ملکی سطح پر ہونے والے فیصلوں میں ایم کیو ایم کو شامل کیا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ وہ صوبائی اسمبلی ہو یا قومی اسمبلی یا پھر سینٹ کا ایوان ہر جگہ ایم کیو ایم کی اہمیت مسلمہ ہے اور یہ سب قائدِ تحریک کی خلوصِ نیت جب الوطنی اور دور اندیشی کا نبیجہ ہے۔ کارکنان کی جدوجہد اور فکر و فلسفے سے جڑے رہنا اور ان کی قربانیاں ہی کامیابی کی مرہونِ منت ہیں۔ قائدِ تحریک نے بھی اپنے بزرگ بھائی اور جواں سالہ بھتیجے کا لہو تحریک کی نذر کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کا رشتہ اپنے کارکنان سے حد درجے مضبوط ہے۔ ہزاروں میل کا فاصلہ بھی اس رشتے میں ڈراڑ نہیں ڈال سکا۔ بلکہ جسمانی دوری نے آواز کے رشتے کو قوت بخش دی۔ قائد کی آواز کارکنان کے لیے آمرت کا درجہ رکھتی ہے جو نئی توانائیاں عطا کرتی ہے۔ یقیناًجدوجہد کا یہ سفر اختتام کی جانب رواں ہے جس کی منزل انقلاب ہے اور انقلاب آنے کو ہے۔ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کی سوچ کو پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ سارے ملک مَں اس سوچ کے پھیلنے کی ضرورت ہے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کو آگے آنے کا موقعہ ملے اور اپنی صلاحتیوں سے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکیں کیونکہ آج کا نوجوان یہ ٹھان چکا ہے کہ ظلم و ستم اور ناانصافیوں کو ختم کرکے دم لیں گے۔ اپنا دستور ہے دشمن کو دعا بھی دینا اور ظالم ہو تو بھرپور سزا بھی دینا دوسرے گال پہ تھپڑ نہیں کھاتے ہم لوگ احتیاطاً یہ سمتگر کو بتا بھی دینا