Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

تحریر : ندیم نصرت ’’ واہ پیرمظہر الحق صاحب ‘‘

 Posted on: 2/25/2013   Views:3464
تحریر : ندیم نصرت ’’ واہ پیرمظہر الحق صاحب ‘‘  سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اتوار کے روز سندھ یونیورسٹی کے کانوو کمیشن سے خطاب کرتے ہوئے جوش خطابت میں یہ انکشاف کر گئے کہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں یونیو رسٹی بنانے کی ’’سازش‘‘ کو ناکام بنانے کا سہر،ا ان کے سر جاتا ہے۔ گو کہ جناب مظہر الحق نے تر دید جاری کر دی ہے تاہم بعض نجی ٹی وی چینلز نے مذکور ہ تقریب کی جو ویڈیوخبر بار بار نشر کی ہے اس میں وزیر موصوف کو واضح طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ حیدر آباد میں یونیو رسٹی کے قیام کی سازش کی جارہی تھی تاہم وہ اسکے خلاف ایک’’ آ ہنی دیوار‘‘ کی طرح ڈٹ گئے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز پیر مظہر الحق نے سندھ یونیو رسٹی کے کانو وکیشن سے خطاب کیا اسی روز وزیر اعظم پاکستان جناب راجہ پر ویز اشرف نے بھی حیدرآباد میں ایک کا لج کی تقریب سے خطاب کیا ، وزیر اعظم کے خطاب کے دوران ایک مرحلہ ایسا آیا جب تقریب کے شرکاء نے پر جو ش طریقے سے کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ وزیر اعظم نے ، جو یقیناًانتہائی خوشگو ار مو ڈ میں تھے ، فرمایا کہ چو نکہ میں خوداس کالج کا طالب علم رہا ہوں لہٰذا میں کیسے اس مطالبہ کو مستر د کر سکتا ہوں۔تقریب کے شرکا کو یہ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ اب وزیر اعظم حیدرآبا د میں یونیو رسٹی کے دیرینہ مطالبہ کو منظور کرنے ہی والے ہیں کہ دفتعاً پیر مظہر الحق نے وزیر اعظم کے کان میں کچھ سر گوشی کی جس کے بعد وزیر اعظم نے موضوع کو سرے سے ہی تبدیل کر دیا ۔
اب پیر مظہر الحق صاحب نے وزیر اعظم پاکستان کے کان میں کیا سر گوشی کی اس سے یا تو یہ دونوں حضرات واقف ہیں یا وہ ذاتِ باری جو ہر چیز سے واقف ہے۔ تاہم پاکستان او ر اسکے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہر محب وطن کیلئے یہ صورتحال کسی المیہ سے قطعاً کم نہیں ہے ۔
سمجھ میں نہیں آتا اس صورتحال پر کیا تبصرہ کیا جائے پیر مظہر صاحب کیا کہا جائے تنگ نظر قوم پرست آج یقیناًواہ واہ پیر صاحب کے نعرے لگا رہے ہوں گے تاہم روشن خیال، علم پر ست اور وطن پرست ’’ ہائے ہائے پیر صاحب ‘‘ کے علا وہ اور کیا کہہ سکتے ہیں !۔ محوحیرت ہوں کس کسطرح صوبہ کا وزیر تعلیم اپنے ہی صوبے کے دوسرے بڑے شہر میں تعمیر ہونے والے پہلی یونیورسٹی کے قیام کے خیلاف ’’آئینی دیوار ‘‘ بن سکتا ہے ۔پاکستان میں نوجوان نسل اور اسکے مستقبل کے بارے میں ہمارے اپنے ملک سے زیادہ بیرون ملک تشویش پائی جاتی ہے اور اس ضمن میں متعدد رپورٹس حالیہ چند بر سوں میں شائع ہوچکی ہیں ۔ ان رپور ٹس میں شائع ہونے والے حقائق کے مطابق گذشتہ پچاس برسوں میں پاکستان کی آبادی میں تین گنا اضانہ ہوچکا ہے جبکہ اگلے بیس بر سو ں میں آبادی میں مزید ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہوجائیگا ۔ ماہرین کے مطابق 2030ء تک پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہر ی علاقوں کی آبادی ، دیہی آبادی سے بڑھ جائیگی تاہم ہمارا ملک اس اضافہء آبادی اور اسکی ضروریات سے نمٹنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔ 
غالباً پیر مظہر الحق صاحب کی نظر سے بھی یہ حقائق گزرے ہوں گے تاہم میں ان کو دوبارہ بتا نا چاہونگا کہ اس وقت پاکستان کی پچاس فیصد آبادی 20سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے دو تہائی 13سال سے بھی کم عمر ہیں ۔پاکستان کے بچوں کی نصف سے بھی کم تعداد کو پرائمر ی اسکو ل کی تعلیم نصیب ہوتی ہے ۔صرف ایک تہائی سیکنڈ ری تعلیم حاصل کر پاتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی شرح محض پانچ فیصد ہے ۔
میں جناب پیر مظہر الحق سے انتہائی ادب کے ساتھ یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی نہیں کر تے کہ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا اور نئے تعلیمی ادارے بنانا کوئی سازش نہیں بلکہ وطن عزیز کی ضرورت ہے ؟ میں پیر مظہر الحق صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ملک کو تعلیم یافتہ افراد کی شدید ضرورت ہے ، نئے تعلیمی اداروں اور جامعات کا قیام سازش نہیں ہے بلکہ ان اداروں کے قیام کو نسلی او ر لسانی تعصبات کی بنیاد پر روکنے والے سازشی ہیں ۔
اگر پیر مظہر الحق صاحب واقعی سندھ سے مخلص ہیں تو مزید تردید یں جاری کرنے کے بجائے فوری طو رپر سندھ اسمبلی سے حیدر آباد سمیت سندھ کے تمام شہروں ،قصبات،حتیٰ کہ دیہات تک میں نئے تعلیمی اداروں کے قیام کے بل کو منظور کروائیں ۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں مزید کوئی تردیدجاری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔