Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

الطاف حسین کارکنوں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزام سے بری


 الطاف حسین کارکنوں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزام سے بری
 Posted on: 2/15/2022

الطاف حسین کارکنوں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزام سے بری

  • رفاقت علی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
الطاف حسین

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

اکتیس جنوری 2022 کو الطاف حسین لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ آمد پر اپنے حامیوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں

لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ کی بارہ رکنی جیوری نے برطانیہ میں مقیم ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کو کراچی میں اپنے کارکنوں کو دہشتگردی پر اکسانے کے الزامات سے بری قرار دیا ہے۔

بارہ رکنی جیوری نے نو گھنٹے کے غور و خوض کے بعد الطاف حسین کو ایک اکثریتی فیصلے میں دونوں الزامات میں بے قصور قرار دیا ہے۔ جب جیوری متفقہ فیصلے پر نہ پہنچ سکی تو عدالت نے انھیں اکثریتی فیصلے سنانے کے احکامات جاری کیے تھے۔

کراؤن پراسیکیوش نے الطاف حسین کے خلاف ٹیررازم ایکٹ 2006 کی سیکشن 1 (2) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

الطاف حسین پر الزام تھا کہ انھوں نے 22 اگست 2016 کو لندن سے ٹیلیفون کے ذریعے دو مختلف تقاریر میں اپنے پارٹی کارکنوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔

الطاف حسین پر الزام تھا کہ انھوں اپنی تقریر میں مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف نعرے بلند کیے تھے اور اپنے حامیوں کو کراچی رینجرز کے ہیڈکوارٹرز کے علاوہ اے آر وائی، جیو اور سما کے دفاتر پر حملے پر اکسایا تھا۔

الطاف حسین نے صحتِ جرم سے انکار کرتے ہوئے اپنا دفاع پیش کیا اور مقدمے کی سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود رہے۔

یہ بھی پڑھیے

الطاف حسین کے وکیل نے مقدمے کی سماعت کے آغاز میں عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے مؤکل عدالت میں گواہی دیں گے لیکن بعد میں انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔

استغاثہ نے جیوری کو بتایا تھا کہ 22 اگست 2016 کی شام کو الطاف حسین نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک جاری رہنے والی تقریر میں 'پاکستان مردہ بادہ' کا نعرہ بلند کیا اور ان کے حامیوں نے بھی الطاف حسین کی پیروی کرتے ہوئے وہی الفاظ دہرائے تھے۔

وکیل استغاثہ نے جیوری کو بتایا تھا کہ ملزم برطانیہ کے محفوظ ماحول میں بیٹھ کر پاکستان میں اپنے کارکنوں کو ایسے اقدامات کرنے کی ہدایت کر رہا تھا جو برطانوی قوانین کے تحت دہشتگردی کی ترغیب ہے۔

الطاف حسین کے وکیل نے جیوری کو بتایا تھا کہ ’میرا مؤکل دہشتگرد نہیں اور اس کی 22 اگست 2016 کی تقاریر کو مایوسی کے شکار شخص کی ’بے ربط باتوں‘ کے طور پر دیکھا جائے۔

وکیل دفاع نے کہا کہ الطاف حسین لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی تقاریر کو نشر و اشاعت پر پابندی کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں تھے۔

الطاف حسین کے وکیل نے جیوری کے سامنے اپنے دلائل میں موقف اپنایا تھا کہ جیوری کو فیصلہ کرتے وقت پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے مؤکل کے خلاف الزامات کو برطانوی معیار پر نہیں پرکھا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے حالات، ثقافت، سیاست اور ریاستی عناصر کے رویے مختلف ہیں۔

وکیل دفاع نے کہا کہ پاکستان کے ریاستی عناصر پر شہریوں پر تشدد کرنے، لاپتہ کرنے اور شہریوں کے ماورائے عدالت قتل جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔

وکیل دفاع نے کہا کہ الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقاریر ان کی 'مایوسی اور جذباتی پن‘کی عکاسی کرتی ہیں اور وہ لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے گھروں سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

وکیل دفاع نے کہا کہ الطاف حسین کی جانب سے پانچ لاکھ افراد کے ساتھ رینجرز کے ہیڈکوارٹرز پر دھاوا بولنے اور رینجرز کے سربراہ کو گدھے پر بٹھا کر شہر میں پریڈ کرانے کی باتیں 'پرجوش خطابت' سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔

وکیل دفاع نے کہا کہ جب الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو کراچی میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا اس وقت وہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے سربراہ تھے۔

وکیل دفاع نے کہا کہ ان کے مؤکل محض کراچی میں ریاستی اداروں کی بربریت کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔



link: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60392960




5/19/2024 2:02:36 AM