Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

کل کے دشمن آج کے دوست تحریر : ارشد حسین

 Posted on: 3/31/2013   Views:4254
کل کے دشمن آج کے دوست
[email protected]تحریر : ارشد حسین
ملک میں عام انتخابات کی تیارں زور شور سے جاری ہیں جبکہ لوٹا کریسی بھی جم کے سامنے آرہی ہے ، انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے سلسل میں بھاک دوڑ کا عمل بھی سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے تیز ی کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے ، گو یا کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست دشمن کی شکال اختیار کر رہے ہیں ، آج محض اقتدار کے لئے ایک جگہ پر جمع ہوتے اور ایک ٹیبل پر بیٹھے نظر آرہے ہیں مگر عوام گواہ ہیں کہ یہی لوگ کبھی عوام کے مسائل ان کے حقوق کے حصول ،پانی ،بجلی ،گیس ، روزگار ،تعلیم جیسے مسئلے پر کبھی ایک جگہ یا ٹیبل پر نہیں دکھا ئی دیئے ۔ پیپلزپارٹی اورق لیگ کے لوگ مسلم لیگ ن کی طرف تو کہیں مسلم لیگ ن کے لو گ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں ، مسلم لیگ فنکشنل میں ہم خیال گروپ کے لوگ شامل ہوئے، پی پی پی ،مسلم لیگ (ن) ، (ق ) اور جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کے اہم کردار اعظم خان سواتی ،جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی ،خورشید قصوری، شفقت محمود سمیت دیگر اہم راہنماء بھی تحریک انصاف میں جا بیٹھے ، جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی ممتاز بھٹو نے تو اپنی جماعت ہی مسلم لیگ ن میں ضم کر دی، سندھ اور بلوچستان کے تما م قوم پرستوں نے بھی اقتدار کے چکر میں اتحاد بنا لیا اور ماضی میں پنجاب کیلئے سندھ کا راستہ روکنے او رپٹریا ں اکھاڑنے کی باتیں کر نے والے آج خود پنجاب کے لوگوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں ۔ جبکہ واحد جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے جس کا کوئی بھی رکن پارلیمنٹرین یا راہنماء کسی جماعت میں شامل نہیں ہوا ، البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہائی اہم اور سینئر راہنماء نبیل گبول صاحب متحدہ قومی مومنٹ میں شامل ہوئے جبکہ پی پی پی کے جمشید دستی نے بھی اپنی جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی جو یقیناًپیپلز پارٹی کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوا ہوگا پنجاب گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر، بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں سے تاجر برادری ،صنعتکار ،سیاسی وسماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایم کیوایم میں شمولت بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے ،، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ ان کا کدھر کی طرف رخ ہوگا یا اکیلے ہی مقابلہ کر یں گے ۔جبکہ عموما یہی دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد شکست خوردہ جماعتوں کے لوگ حکومتی جماعت میں دھڑا دھڑ شامل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسا کہ2002ء کے عام انتخابات میں دیکھنے میں آیا تھا کہ مسلم لیگ (ن ) کے آادھے ارکان نے مسلم لیگ (ق) بنالی تھی اسی طرح 2008ء کے عام انتخابات کے بعد دیکھنے میں آیاتھا جہاں مسلم لیگ ق کے بیشتر لو گوں نے یا تو ہم خیال گروپ بنا لیا یا پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے جس میں سینیٹر انوربیگ صاحب، طارق عظیم ، ماروی میمن ، کشمالہ طارق ،فخر اما مس سمیت دیگر شامل ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کی کرسی کس جماعت کے حصے میں آتی ہے ۔تبدیلی کی باتیں تقریباً ہر سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے کی جارہی ہیں، پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایوانوں میں بھیجنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں، اگر ایسی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں تو عوام بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام تو ایم کیوایم نے کئی برسوں پہلے ہی شروع کر دیا تھا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جس نے گنے کا رس بیچنے والے ،پان کا کھوکھا لگانے والے ،ٹیکسی چلانے والے ،سبزدی کا ٹھیلالگانے والے، ٹیلی فون آپریٹر سمیت غریب متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے لوگوں کو عام انتخابات میں کامیاب کر واکرایوانوں میں بھیجا ، قومی صوبائی اسمبلیوں میں ،میئر، ڈپٹی میئر، ناظمین ، ڈپٹی ناظمین ،ٹاؤن ناظمین،یوسی ناظمین ،کونسلر اور دیگر منصب پر فائز کر وایا گویا تبدیلی کی بنیاد تو ایم کیوایم کئی سال قبل رکھ چکی ہے ۔مگر اس تبدیل کی بات صرف اس لئے کسی سیاسی ومذہبی جماعت یا میڈیا کے اہم لوگوں کے منہ پر نہیںآتی کہ وہ ایم کیوایم کو ایک دہشت گر د جماعت بنا کر دنیا میں پیش کر نا چاہتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ٹاک شو یا پروگرام میں ایم کیوایم کے خلاف باتیں تو کی جاتی ہیں مگر اسکے مثبت پہلوں کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ پنجا ب کے خادم اعلیٰ کی انتخابی مہم تک چلا دی جاتی ہے ان کی تعریفی کلمات کے قصید ے بھی کہہ دیئے جاتے ہیں مگر انہیں ایم کیویم کے وہ کارنامے نظر نہیں آتے جو انہوں نے اپنے دور میں میئر اور ناظم بننے اور ارکان پارلیمنٹرین کے کوٹے سے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کر وائے۔ یہاں ان سیاسی ومذہبی جماعتوں او رکچھ میڈا کے اہم نمائندوں کی جانب سے ایم کیوایم دشمنی واضح نظر آتی ہے جیسا کہ سانحہ عباس ٹاؤن پر تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائند ے اور اینکر ز کراچی میں آکر عباس ٹاؤن کے متاثرین سے انڑویولینے کے دوران ان کے منہ میں ایم کیوایم کے خلاف جملے ڈالنے کی تو کوشش کر رہے تھے بلکہ ان کا بس چلتا تو سانحہ عباس ٹاؤن کی ذمہ داری ایم کیوایم پر ہی عائد کر دیتے ۔مگر پنجاب کے زندہ دلان شہر لاہور کے سانحہ بادآدمی باغ پر پنجاب کے اینکر پرسن نہ صرف خاموش رہے بلکہ جائے وقوع کا دورہ اور اس بستی کی رپورٹنگ تک گوارا نہ کی، جبکہ سپر یم کورٹ تک نے اس سانحہ کو زمین خالی کرانے کیلئے سوچی سمجھی سازش قراردیا تھا پنجاب حکومت کی جانب سے بستی کو خالی کرانے اور آگ لگانے کی رپورٹس بھی سامنے آگئی تھیں اس کے باوجو دمیڈیا کی جانب سے د انستہ خاموشی معنی خیز ہے ۔ کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی غرض سے پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ غیر قانونی ہتھیار رکھنے والے افراد 7دن کے اندر اپنے متعلقہ تھانوں میں اسلحہ جمع کرادیں بصور ت دیگر سخت کارروائی کی جائے گی ،خبر یقیناًخوش آئند ہے اور اس کا خیر مقد م بھی کیا جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے ہی پہل کی جہاں انہوں نے نہ صرف عوام بلکہ اپنے کارکنان کو سختی سے ہدایت کی کہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی میں بھر تعاون کریں بلکہ ان کے پاس بھی اگر کسی بھی قسم کا غیر قانونی اسلحہ ہے اسے متعلقہ تھانوں میں جمع کر وادیں ، مگر لگتا ہے کہ جو اینکر پرسن ایم کیوایم دشمنی میں مبتلا ہیں انہیں الطاف حسین کی باتیں نظر نہیں آئیں اور نہ ہی وہ بیانات ان کی نظر و ں سے گزرے ۔جبکہ سپر یم کورٹ کراچی بدامنی کیس کے حوالے سے واضح کرچکی ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی ،جماعت اسلامی ،سنی تحریک سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں جن کے عسکر ی ویگز بھی ہیں۔جو سیاسی ومذہبی جماعتیں کراچی میں آپر یشن کی باتیں کر رہی تھیں ان کی جانب سے اپنے کارکنان کو غیر قانونی اسلحہ جمع کرانے کے لئے کیوں نہیں کہا گیا اور نہ ہی اس کارروائی کا خیر مقدم کیا گیا جبکہ ان کو تو 1992ء کی طرح خوش ہونا چاہئے تھا شادیانے بجانے چاہئے تھے ،شاید جماعت اسلامی والے یہ عمل کرنے سے اس لئے قاصر ہیں کہ جو پولیس افسران سندھ خصوصاً کراچی میں تعینات کئے گئے ہیں وہ ایماند ر اورنیک نیتی سے کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں جنہوں نے واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی سیاسی ومذہبی جماعت سے ہو اسے گرفتار کیا جائے گا اور قانون کے مطابق سخت سے سخت سز ادی جائے گی۔
*****