Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

(پاکستان ایک نظر میں) - 14 دسمبر 1986

 Posted on: 12/14/2014   Views:2759
http://www.express.pk/story/309872/
انسان ایک فطرت پر پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر مختلف رجحانات میں بدل جاتی ہے۔ مختلف ادوار میں انسان کی ذہنی فکریات نے مختلف سانحات و حادثات کو جنم دیا، ان میں سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جنھیں بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دور جہالت ہو یا دور جدید تمام تجزیوں سے یہی ثابت ہے کہ انسان غصہ کی حالت میں پاگل پن کی آخری حدود کو چھو لیتا ہے، اور یہ بھی  حقیقت ہے کہ  غصہ ہمیشہ حماقت سے شروع ہوکر ندامت پر ختم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ شاید انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے سانحات انسانی ذہن کی ہی مرہون منت ہیں ۔ دنیا بھر میں بہت سخت قوانین بنائے گئے تاکہ ان تمام سانحات کے سدباب ہوسکے لیکن افسوس کہ سب قوانین بے سود رہے۔ دہشتگردی،  ٹارگٹ کلنگ،  ماورائے عدالت قتل اور طاقت کے نشے میں چور ظالم حکمرانوں نے کمزور اور نہتے عوام کو کئی بار موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے علاوہ اس جیسے درجنوں جرائم ہیں جو ہمارے ملک پاکستان میں ماضی میں بھی رونما ہوچکے ہیں اور آج بھی جاری ہیں۔ بے شمار ایسے سانحات ہیں جن کی گتھیاں آج تک نہ سلجھائی جاسکی۔ یہ مختصر سا جائزہ میں اپنے بلاگ کے ذریعے آپ تک اس لئے  پہنچا رہا ہوں کہ جو کچھ ماضی میں ہوا ہے شاید عوام میں شعور بیدار ہونے کے بعد مستقبل میں ایسے سانحات نہ ہوں۔ اگر اب بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اور من مانی کے ذریعے درندگی کا ثبوت دیا گیا تو ملکی قوانین کا مذاق بن کر رہ جائے گا اور حالات قابو سے باہر ہونے کا مقصد پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ چاہے 1965 اور 1972 میں اردو بولنے والوں کا قتل عام ہو یا 1986 سانحہ سہراب گوٹھ ہو یا  1988 میں سانحہ پکا قلعہ ہو،غرض یہ کہ بے بس عوام کو ہر دفعہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے علاقے  قصبہ و علی گڑھ  کالونی میں 14 دسمبر 1986 کو ایک درد ناک سانحہ پیش آیا، اس کی بنیاد وہ آپریشن تھا جو کہ سہراب گوٹھ میں منشیات فروشوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف 12 دسمبر 1986 کو شروع کیا گیا، جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منشیات فروشوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ اس ضمن میں پختون ایکشن کمیٹی کی جانب سے سہراب گوٹھ آپریشن  بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کارروائی نہ روکنے پر غیر معینہ مدت کے لئے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کردیا گیا۔ دوسری جانب سہراب گوٹھ کے مفرور اسلحہ اور منشیات فروشوں نے اورنگی ٹاؤن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہولناک خون ریزی شروع کردی اور 14 دسمبر 1986 کو پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی  میں منشیات و اسلحہ مافیا کے دہشتگرد سینکڑوں کی تعداد میں جدید ترین ہتھیاروں  ہینڈ گرینیڈ اور آتشی پاوڈر سے لیس ہو کر پہاڑوں سے اترے اور انہوں نے اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ کالونی اور  علی گڑھ کالونی کے مکینوں پر حملہ کردیا۔ مسلح دہشت گرد بے گناہ شہریوں پر گولیاں برساتے رہے، جیتے جاگتے بچوں کو دہکتی آگ میں جھونکتے رہے اور کئی گھنٹے تک بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے، لیکن ان دہشت گردوں کو روکنے اور نہتے عوام کو تحفظ دینے والا کوئی نہ تھا۔ بے گناہ شہریوں  کی جان و مال عزت و آبرو سے کھیلنے والے دہشت گرد بلاخوف خطرہ انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور  پھر سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کرکے، ان گھروں  میں صف ماتم بچھا کر اور بزرگ والدین سے ان کے  سہارے چھین کر درندہ صفت دہشتگرد پہاڑیوں پر چڑھ کر فرار ہوگئے۔ 15 دسمبر   1986 کو اس سرخی کے ساتھ خبر شائع کی گئی کہ ” کراچی میں مسلح گروہ نے 54 افراد کو ہلاک کردیا‘‘۔ سب سرخیاں تھیں کہ ” کراچی شہر کی تاریخ کا بدترین فساد اورنگی ٹاؤن میں 350 مکانات اور دکانیں نذر آتش کمسن بچوں کو آگ  میں پھینک کر زندہ جلادیا گیا 310 افراد شدید زخمی حملہ آوروں کی درندگی 8 گھنٹے تک جاری رہی لوگ مدد کیلئے گڑ گڑاتے رہے۔ 16 دسمبر کو لکھا کہ “کراچی میں بربریت کا بدترین مظاہرہ ،مزید 60 افراد ہلاک‘‘ تاریخ کی بدترین دہشتگردی کے ذمہ داروں کو نہ تو گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی گئی اور نہ کبھی اس المناک سانحہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ سانحہ قصبہ و علی گڑھ کالونی میں شہید ہونے والے مہاجروں کے عزیز و اقارب آج بھی اپنے پیاروں کے غم میں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں۔ آج اس سانحہ کو سالوں بیت گئے مگر افسوس کہ آج بھی سانحہ قصبہ و علی گڑھ کالونی کے متاثر خاندان کو انصاف نہ مل سکا۔ سانحات رونما ہو تو جاتے ہیں مگر بروقت انصاف نہ ملے تو ان سانحات سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جس کے بعد معاشرے میں عدم برداشت کی فضا کو تقویت ملتی ہے لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ  پاکستان کے حکمراں اپنے طرز حکمرانی  کو تبدیل کرکے ملک میں عدل کا نظام قائم کریں، تاکہ مہاجروں پر ہونے والے ظلم اور سانحہ قصبہ و علی گڑھ کالونی جیسے دردناک واقعات میں ملوث دہشتگردوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے اور  آئندہ ایسے سانحات کو رونما ہونے سے روکا جائے۔ سانحہ قصبہ و علیگڑھ کالونی اور دیگر سانحات میں شہد ہونے والے مہاجروں کو سلام تحسین پیش کرتا ہوں جو تمام ظلم و ستم سہہ کر بھی حق پرستی کے پرچم کو تھامے رہے۔ اللہ تمام شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے اور شہداء کے درجات کو بلند کرے آمین۔