پاکستان میں اس وقت27ویں آئینی ترمیم کےحوالے سے ایک سیاسی جنگ چل رہی ہے اوربعض سیاسی جماعتیں، صحافیوں اور لکھاریوں کاایک مخصوص حلقہ اس میں فوج کوموردالزام ٹھہرارہاہے۔اگرفوج اور سیاسی جماعتوں کے طرزعمل پر غورکیاجائے تو میرا سوال یہ ہےکہ آئینی ترامیم کے حوالے سے بڑاقصوروارکون ہے؟ بعض لوگ اس میں فوج کوقصوروارقراردے رہے ہیں، اسلئےکہ آج کل ہرمعاملےمیں فوج اوراسکے جرنیلوں کو گالی دینااورانہیں موردالزام ٹھہرانا ایک فیشن بن گیاہے۔ اگر سوچ وفکرکو بھی چلتے ہوئے فیشن کی طرح اپنایاجائے اور سوچ وفکر کو بھی فیشن کے تابع کردیاجائے تویہ بات درست نہیں۔جب تک آپ کسی بھی بات کے مثبت اورمنفی پہلوؤں کوسامنے رکھ کر حقائق کی بنیاد پراس کاتجزیہ نہیں کریں گے بلکہ چلتے ہوئےفیشن کےحساب سے اس پر غورکریں گے توآپ صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
جس قوم میں سوچ وفکرحقائق کے بجائے فیشن کے طورپراپنائی جائے توایسی صورت میں اس قوم کے حکمراں بھی عوام کواسی طرح استعمال کرتےہیں اورعوام فیشن کے طور پردیئےگئے نعروں پر بیوقوف بنتے رہتے ہیں اوران کے ہاتھ پچھتاوےکے سواکچھ نہیں آتا۔
آج 27ویں آئینی ترامیم کے معاملے میں بھی فوج پرانگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، میراسوال یہ ہےکہ27 ترامیم سینیٹ کے ایوان میں کیا فوج کےجرنیلوں نے پیش کی ہیں؟یایہ ترامیم مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی لیکرآئی ہیں؟ کیایہ آئینی ترامیم کوتیارکرنے اورلانے والی فوج ہے یا اس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پیش پیش ہیں؟ فوج کبھی بھی خود نہیں آئی بلکہ ہمیشہ ان سیاسی ومذہبی جماعتوں نےہی فوج کواپنےکاندھےفراہم کئے ہیں کہ ہمارے کاندھے پرچڑھ کرآؤ۔ پھر ان جیسےاقدامات پر فوج کو مورد الزام ٹھہرانا کیادرست ہوگا؟کیاپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنی آمرانہ حکومتیں قائم نہیں کیں؟ 1970ء کے عام انتخابات فوجی ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نےکرائےتھےجس میں سابقہ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نےبھاری اکثریت سےکامیابی حاصل کی تھی اور پیپلزپارٹی کی نشستیں آدھی سے بھی کم تھیں لیکن عوامی لیگ کی کامیابی کوقبول کرنےاورجمہوری اصولوں کے تحت اسے اقتدارمنتقل کرنےکےبجائے '' اُدھرتم، اِدھر ہم ''کانعرہ کس نےلگایا تھا؟پاکستان میں پہلا سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کون بناتھا؟
میاں نوازشریف،شہبازشریف اورمریم نوازاپنے جلسوں میں ''ووٹ کوعزت دو '' کےنعرے لگواتےتھےپھران نعروں پرعوام کوبیوقوف بناکر اپنےاصولوں کاسودا کس نےکیا؟
سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت پر تنقید سب سے پہلے الطاف حسین نے ہی کی تھی لیکن آج جمہوریت کی نام نہادعلمبردار بننے والی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے الطاف حسین کوملک دشمن، دہشت گرد قراردیااوراس پر طرح طرح کے الزامات اور بہتان لگائے۔
1992 میں 72بڑی مچھلیوں کے خلاف ایکشن کی آڑ میں ایم کیوایم کے خلاف جو بدترین آپریشن شروع کیا گیا تھا اس وقت نواز شریف صاحب ہی وزیراعظم تھے جنہوں نے ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کی منظوری دی جواس وقت ان کی اتحادی تھی اور ان کی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ نوازشریف نےجلسے سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ میں نے امن کے لئے اپنے 15دوستوں کی قربانی دیدی۔اس آپریشن میں ہمارے ہزاروں ساتھی شہید کردیئے گئے، سینکڑوں لاپتہ کردیے گئے، جن میں سے بہت سے آج تک لاپتہ ہیں، ہزاروں جیلوں میں قیدہوئے،بہت سے آج بھی کئی سالوں سےجھوٹے مقدمات میں جیلوں کی اذیتیں جھیل رہے ہیں، لیکن کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت نے اس پر مذمت کے دولفظ تک نہ کہے بلکہ ایم کیوایم پرہی بیہودہ الزامات لگائے۔ نوازشریف کے دورمیں یہ آپریشن اس ایم کیوایم کے خلاف کیا جس نے ملک میں چند خاندانوں کی حکمرانی اور اسٹیٹس کو کوچیلنج کیااور پہلی مرتبہ غریب اورمڈل کلاس نوجوانوں کواسمبلیوں میں بھیجا۔
الطاف حسین نے اقتدارمافیا کی کرپشن ، لوٹ مار اورغیرجمہوری اقدامات کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی لیکن جمہوریت کی نام نہاد علمبردارسیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مجھ پر ہی الزام تراشی کی او رمجھے ملک اورعوام کا دشمن بناکرپیش کیا اور آج وہ خود انہی چیزوں کانشانہ بن رہے ہیں۔
اگر انہوں نےمیری آواز میں آواز ملائی ہوتی تو آج ملک اس صورتحال سے دوچارنہ ہوتا۔ لوگوں کویہ سوچنا چاہیے کہ یہ آئینی ترامیم صرف فوج کےلئے نہیں بلکہ شریف اورزرداری خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لئے لائی جارہی ہیں تاکہ کوئی ان کی لوٹ مار اور کرپشن پر ان کااحتساب نہ کرسکے اوریہ خاندان ملک کولوٹتے رہیں اور عوام اسی طرح غلام بنکر رہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاکستان کے عوام کوتوفیق دے کہ وہ اپنی سوچ وفکرکوفیشن کے تابع کرنے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر غوروفکر کریں اوران میں اتنی جرات وہمت پیداکرے کہ وہ سچ بولیں اور اپنی قسمت بدلنے کےلئے عملی جدوجہد بھی کریں۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 245ویں فکری نشست سے خطاب
9 نومبر 2025