Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری تھی۔ الطاف حسین


1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری تھی۔ الطاف حسین
 Posted on: 1/7/2022 1
1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری تھی۔ الطاف حسین
  ادھوری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اسی حالت میں ہندوستان واپس نہیں مل جاتاجس حالت میں انگریزوں نے قبضہ کیاتھا 
ہندوستان کی تقسیم تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی، یہ تقسیم گناہِ صغیرہ نہیں بلکہ
 گناہ کبیرہ اور سب سے بڑاجرم تھا
بٹوارے نے ہندوستان کاجغرافیہ ہی نہیں بلکہ خاندانوںکو تقسیم کردیا، خاندانوں
 کی وراثت، معاشرت، تہذیب، ثقافت سب کچھ تقسیم کردیا 
 تقسیم کی لکیر کوبارڈر اوربٹوارے کو آزادی سمجھنے والے احمقوںکی جنت میں رہتے ہیں
 اب ہماراجینا مرناسندھ سے وابستہ ہے، ہم سندھ کو آزاد دیکھناچاہتے ہیں
 جوقوم غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے تیار نہ ہو اور مجبوریوں کی بیڑیاں پہننے کی عادی ہوجائے ،نسل درنسل غلامی اورذلت ورسوائی ا س کامقدر بن جاتی ہے
 مہاجرعوام کومصلحت ، بزدلی اورخودغرضی کی چادراتارکر قوم کی بقاء اورآئندہ نسلوں کی باعزت زندگی اور بہتر مستقبل کیلئے میدان عمل میں آکرجدوجہدکرنی ہوگی
 قائدتحریک الطاف حسین کاایم کیوایم کے کارکنوں کو لیکچر  

لندن …   7  جنور ی2022ئ
ایم کیوایم کے قائدجناب الطاف حسین نے کہاہے کہ 1947ء میں ہندوستان کوملنے والی آزادی مکمل نہیں بلکہ ادھوری آزادی تھی، یہ ادھوری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اسے جغرافیائی لحاظ سے اسی حالت میں ہندوستان واپس نہیں مل جاتاجس حالت میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کیاتھا۔ جناب الطاف حسین نے ان خیالات کااظہار گزشتہ روز ایم کیوایم کے کارکنوں کودیئے گئے ایک لیکچر میں کیا۔ لیکچر کاموضوع '' ہندوستان کی ادھوری آزادی '' تھا۔  
جناب الطاف حسین نے کہاکہ تاریخی اعتبار سے برصغیر(Sub Continent) ہندوستان اور پاکستان سمیت ایک بڑے خطے پر مشتمل تھا جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔ ہندوستان کے جغرافیہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ مت  اوردیگر مذاہب ،مسالک اورعقائد کے ماننے والے آباد تھے ۔ جب نوآبادیاتی دور کا سلسلہ شروع ہوااورسلطنت برطانیہ نے جب اپنے علم وشعور، جدیدٹیکنالوجی اور عسکری قوت کے ذریعے کم ترقی یافتہ ممالک پرقبضہ شر وع کیا تو اس کی سلطنت کادائرہ اتنے بڑے جغرافیہ پر پھیل چکاتھاکہ کہاجاتاتھاکہ وہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔ سلطنت برطانیہ کے لوگ تاجروں کی شکل میں ہندوستان آئے ، انہوں نے ہندوستان کے کلچر، طرززندگی ، ترقی،عسکری صورتحال ، وہاں کی مال ودولت اورجغرافیہ کی پوری صورتحال کاجائزہ لیااوراس نتیجے پر پہنچے کہ اگر برصغیرپرقبضہ ہوجائے تو برطانوی سلطنت کوبہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ سلطنت برطانیہ نے مغل بادشاہوں کے زمانے سے ہی ایسٹ انڈیاکمپنی کے نام سے ہندوستان پر آہستہ آہستہ اپنے پاؤں جمانے شروع کئے، اپنی فوج بنائی اورآخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی تاجربن کرآنے والے ہندوستان کے تاجداربن گئے ۔ہندوستان کی آزادی کے لئے مختلف تحریکیں شروع ہوئیں، آزادی کے متوالے لڑتے رہے، پھانسیاں چڑھتے رہے اورقربانیاں دیتے رہے۔ ہندوستان کی آزادی کی اس جدوجہد میں ہندوؤں،مسلمانوں، سکھوں، بدھ مت اورتمام مذاہب اورعقائد کے ماننے والے ہندوستانیوں نے رنگ، نسل، مذہب اورعقائدسے بالاترہوکر متحدہوکر حصہ لیا۔ 
سلطنت برطانیہ کے قبضہ کے خاتمہ ،برصغیرکی آزادی اورہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے لئے 1885ء میں ہندوستان کی پہلی باقاعدہ سیاسی جماعت ''آل انڈین نیشنل کانگریس '' کی بنیادرکھی گئی۔موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے رہنما تھے ، وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے ۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے عوام کو متحدکیا اورآزادی کے لئے طویل سیاسی جدوجہدکی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ اپنی سخت اورمسلسل سیاسی جدوجہد اورقربانیوں کی بدولت وہ بعدمیں '' مہاتماگاندھی '' کہلائے ۔ کانگریس میں ہندو، مسلمان، سکھ،بدھ مت، عیسائی اورپارسی سمیت تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والے شامل تھے ۔ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں جہاں سرسیداحمدخان، مولانامحمدعلی جوہر ، مولانا شوکت علی، مولاناحسرت موہانی، قائداعظم محمدعلی جناح ،خان لیاقت علی خان ، مولاناابوالکلام آزاد کے نام لئے جاتے ہیں ۔ وہیں مہاتما گاندھی ، جواہرلال نہرو، ولب بھائی پٹیل بڑے نام تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح بھی پہلے کانگریس میں شامل تھے۔ہندوستان کی آزادی کے لئے جہاں سیاسی جدوجہد کرنے والے رہنماتھے وہیں آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والے رہنما سبھاش چندربوس ایک بڑانام تھے جنہوںنے آزادی کے لئے ''آزادہند فوج''بھی بنائی اورانگریزوںکوبہت ٹف ٹائم دیا ۔ اسی طرح تحریک آزادی میں بھگت سنگھ، چندر شیکھرآزاد اوردیگرشخصیات بھی شامل تھیںجنہوں نے آزادی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ 
جناب الطاف حسین نے کہاکہ تحریک آزادی کے ان عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کی بدولت ہندوستان کوآزادی تو مل گئی لیکن وہ آزادی نامکمل تھی ،ہندوستان مکمل نہیں ادھوراآزاد ہوا، وہ مکمل ہندوستان کی آزادی نہیں بلکہ ہندوستان کا بٹوارہ تھا۔ انہوں نے ہندوستان کے رہنماؤں، تاریخ دانوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اورطالبعلموںسے سوال کیاکہ تحریک آزادی کے ان رہنماؤں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے قربانیاںدی تھیں یا ہندوستان کے بٹوارے کے لئے ؟ آزادی کے ان پروانوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے قربانیاں دی تھیں، ہندوستان کے بٹوارے کے لئے نہیں، پھر ہندوستان کے لوگوںنے ادھوری آزادی پر اکتفا کرکے اپنے آپ کوآزاد کیسے تصور کرلیا؟ قائداعظم محمدعلی جناح کوبٹوارے کاذمہ دار اورانگریزوںکاایجنٹ قراردینے والے ہندوستان کے لیڈرو ں نے بھی ہندوستان کی تقسیم کوقبول کرکے وہی کام کیا جوقائداعظم نے کیا، پھر قائداعظم اوران میں کیا فرق ہے؟ جولوگ ہندوستان کی آزادی کے لئے قربان ہوگئے ، جنہوں نے اس بٹوارے کوآج تک تسلیم نہیں کیا اورجو اس ادھوری آزادی کی تکمیل کی جدوجہد میں بلواسطہ یابلاواسطہ آج تک مصروف ہیں، ان کوکیسے نظرانداز کیاجاسکتاہے؟
جناب الطاف حسین نے ہندوستان کے رہنماؤں، تاریخ دانوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اورطالبعلموں کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ادھورے ہندوستان کی آزادی کی خوشیاں بھی ادھوری ہیں، ہندوستان کی ادھوری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اسے جغرافیائی لحاظ سے اسی حالت میں ہندوستان واپس نہیں مل جاتاجس حالت میں اس پر انگریزوں نے قبضہ کیاتھا۔ آج ہندوستان کی دھرتی ماں پکار پکار کرکہہ رہی ہے تمہاری دھرتی کوتقسیم کیاگیا، اس کے ٹکڑے کئے گئے ، اس کی نامکمل اورادھوری آزادی کو مکمل کرو۔ 
جناب الطاف حسین نے کہاکہ ہندوستان کابٹوارہ انگریز وں نے کیا، ایک برطانوی وائسرائے نے بیٹھ کر بیچ میں ایک لکیر کھینچ دی اورہزاروں سال کے ہندوستان کابٹوارہ کردیاگیا۔تقسیم کی اس لکیر کوبارڈر اوراس بٹوارے کو آزادی سمجھنے والے احمقوںکی جنت میں رہتے ہیں، یہ آزادی نہیں بٹوارہ تھااوراس بٹوارے نے ہندوستان کاجغرافیہ ہی نہیں بلکہ خاندانوںکو تقسیم کردیا، خاندانوں کی وراثت، معاشرت، تہذیب، ثقافت سب کچھ تقسیم کردیا ، جو انگریز کی کھینچی گئی لائن کے اس پار تھے وہ اس پار رہ گئے اورجواس پارتھے وہ اس پار رہ گئے ۔ یہ آزادی کے نام پر تاریخ کاایسامذاق ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ ہندوستان ماں تھی، اس کی تقسیم تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی، یہ تقسیم گناہِ صغیرہ نہیں بلکہ گناہ کبیرہ اور سب سے بڑاجرم تھاجس کی سزا ہندوستان اورپاکستان کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ نہ یہ بٹوارہ ہوتا، نہ دونوں طرف کے لوگوںکو ہجرت کرنی پڑتی ، نہ ہمارے آباؤاجداد کواپناہزارہاسالہ وطن چھوڑ کر پاکستان آناپڑتا، نہ یہاں ہمارے ساتھ غیروں اوردشمنوں جیساسلوک کیاجاتا، نہ ہمیں تلیر، مکڑ، مٹروا، پناہ گیر اور مختلف توہین آمیزناموں سے پکاراجاتا، نہ ہمارے ساتھ متعصبانہ سلوک کیاجاتا، نہ ہمیں ایم کیوایم بنانے کی ضرورت پیش آتی۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ اب ہماراجینا مرناسندھ سے وابستہ ہے، اب سندھ ہماراوطن ہے اورہم سندھ کو آزاد دیکھناچاہتے ہیںاورسندھی بھائیوںسے بھی کہتے ہیں کہ آئیے ملکرسندھ کی آزادی کی جدوجہد کریں۔انہوں نے مہاجرعوام کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جوقوم غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے تیار نہ ہو اور مجبوریوں کی بیڑیاں پہننے کی عادی ہوجائے ،نسل درنسل غلامی اورذلت ورسوائی ا س کامقدر بن جاتی ہے۔ لہٰذا آپ کومصلحت ، بزدلی اورخودغرضی کی چادراتارکر اپنی قوم کی بقاء اورآنے والی نسلوں کی باعزت زندگی اور بہتر مستقبل کے لئے میدان عمل میں آکرجدوجہدکرنی ہوگی۔ انہوں نے مزیدکہاکہ جوقوم خودغرض اورمصلحت پسند بن جائے اس کاوہی حال ہوتاہے جواس وقت مہاجر عوام کاہورہاہے۔ انہوں نے کارکنوں سے کہاکہ وہ تاریخ کامطالعہ کریں، غوروفکرکریں اورتحریک کے پیغام کوآگے بڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلائیں۔ اس موقع پر سوال وجواب کا طویل سیشن بھی ہواجس کے دوران کارکنوں نے جناب الطاف حسین کے فکرانگیز لیکچر کے حوالے سے مختلف سوالات کئے جن کے جناب الطاف حسین
 نے تفصیلی جوابات دیے۔ 
٭٭٭٭٭


4/19/2024 7:41:35 AM