Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

جبری گمشدگیوں کے خلاف خواتین کا احتجاج: ’ہمارے مرد رشتہ دار خود بھی لاپتہ ہو جانے سے ڈرتے ہیں‘


جبری گمشدگیوں کے خلاف خواتین کا احتجاج: ’ہمارے مرد رشتہ دار خود بھی لاپتہ ہو جانے سے ڈرتے ہیں‘
 Posted on: 11/16/2018

جبری گمشدگیوں کے خلاف خواتین کا احتجاج: ’ہمارے مرد رشتہ دار خود بھی لاپتہ ہو جانے سے ڈرتے ہیں‘

کوئٹہ، جبری گمشدگیاں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ گذشتہ دس سال سے جاری ہے، لیکن اس میں نمایاں بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں خواتین کی بڑی تعداد میں آمد اور ہر روز احتجاج میں شرکت کا سلسلہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی خواتین رشتہ داروں کی علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کے بعد سے شروع ہوا۔

چھ سات سال بعد لاپتہ افراد کے مرد رشتہ داروں کی بجائے خواتین رشتہ داروں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کیا وجوہات ہیں ان کے بارے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خوف کا ماحول ہے۔

ان کے بقول لاپتہ افراد کے مرد رشتہ داروں کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کو بھی لاپتہ نہ کیا جائے اس لیے وہ زیادہ تر کسی احتجاج میں شرکت نہیں کرتے۔

اسی بارے میں

جبری گمشدگیاں: جس کی لاٹھی اُس کی بھینس

’گمشدگیوں کا دور اور انسانی حقوق کا سوال‘

بڑھتے ہوئے احتجاج کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے جو وعدے اور دعوے کیے گئے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کے باعث لاپتہ افراد کے خواتین رشتہ داروں کو نکلنا پڑا۔

اس احتجاج میں خاران سے تعلق رکھنے والی دو چھوٹی بچیاں انسہ اور ان کی بہن بھی شامل ہیں۔

کوئٹہ سے جنوب مشرق میں چار سو کلومیٹر دور خاران سے تعلق رکھنے والی ان بچیوں کے ہاتھ میں ان کے نوجوان بھائی عامر بلوچ کی تصویر ہوتی ہے۔

کوئٹہ، جبری گمشدگیاں

انسہ نے بتایا کہ ان کا بھائی کوئٹہ میں پولیٹیکنک انسٹیٹیوٹ کے سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل ان کا بھائی چھٹی پر خاران آیا تھا۔ ان کو ان کے گھر سے سیکورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔

انسہ نے بتایا کہ ان کے بھائی کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے ان کا خاندان ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔

وہ کہتی ہے کہ انہیں صرف ان کا بھائی چاہیے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔

شبیر بلوچ کی خواتین رشتہ داروں کے ساتھ جن دیگر خواتین نے علامتی بھوک ہڑتال شروع کی ہے ان میں مکران سے تعلق رکھنے والی نصیر بلوچ کی بیوی زبیدہ بھی شامل ہیں۔

زبیدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نصیر بلوچ کو ان کے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ کراچی میں یونیورسٹی روڈ سے 15نومبر 2017ء کو لاپتہ کیا گیا۔

کوئٹہ، جبری گمشدگیاں

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔

زبیدہ بلوچ نے بتایا کہ ’شوہر کی گمشدگی کے بعدان کی 6سالہ بچی ہر وقت یہ پوچھتی رہتی ہے کہ بابا کہاں ہے اور وہ کب آئیں گے۔ میرے پاس ان کو جھوٹی تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ‘

لاپتہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اس احتجاج میں حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ بھی شرکت کررہی ہیں۔

جلیلہ حیدر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو جبری طور لاپتہ کرنا خود ملکی آئین اور قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر لاپتہ افراد کے خلاف کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔



4/19/2024 9:01:03 AM